کتاب: رجال القرآن 1 - صفحہ 29
پر بڑا ظلم و ستم کیا گیا۔ مؤذنِ رسول حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ جو پہلے پہل غلام تھے، مسلمان ہوئے تو اُن کا آقا انھیں صحرا کی تپتی ریت پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھوا دیتا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھاری پتھر تلے دبے ہوئے بھی اَحَد اَحَد (اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے) پکارتے رہتے اور بالآخر بے ہوش ہوجاتے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو آپ نے اُنھیں سونے کی پانچ اشرفیوں کے عوض خریدا اور آزاد کردیا۔ قریش کے ظالم سردار نے کہا کہ تم ایک اشرفی بھی دیتے تو ہم اسے بیچ ڈالتے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ تم سو اشرفی بھی طلب کرتے تو میں اسے خرید کر رہتا۔ [1]
یوں اُنھوں نے کئی مجبور و مقہور غلام، جو مسلمان ہوچکے تھے، خرید خرید کر آزاد کیے۔ مشرکین مکہ نے سوچا کہ یہ تو گھاٹے کا سودا ہے۔ مسلمانوں کی تعداد تو برابر بڑھتی جاتی ہے۔ اسلام کی دعوت بھی بدستور جاری ہے۔ تو انھوں نے چراغِ نبوت گل کرنے کا گھناؤنا منصوبہ بنایا۔ اُدھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذنِ ہجرت مل گیا۔
رفیق سفر
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز دوپہر کے وقت اُن کے گھر تشریف لائے۔ آپ عام طور پر اُس وقت نہیں آیا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو آتے دیکھا تو کہا کہ کوئی خاص بات ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تشریف نہیں لایا کرتے۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے۔ کمرے میں حضرت ابوبکر ، حضرت اسماء اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ آپ نے تشریف رکھتے ہی فرمایا کہ اہل خانہ
[1] الکامل لابن الأثیر:2؍ 66۔67۔