کتاب: رجال القرآن 1 - صفحہ 28
مکہ پہنچ کر ابن دغنہ اشراف قریش سے ملا اور انھیں بتایا کہ اُس نے ابوبکر کو پناہ دی ہے۔ اشراف قریش نے اُس کی یہ بات تسلیم کی اور کہا کہ ٹھیک ہے، اس سے کہو، اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کرے، وہیں نماز پڑھے اور جو چاہے قراء ت کرتا رہے لیکن ہمیں ایذا نہ دے اور یہ کام اعلانیہ نہ کرے۔ ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہماری عورتوں اور ہمارے بچوں کو خراب کر دے گا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گھر کے باہر آنگن میں جائے نماز بنائی۔ دن بھر وہیں بیٹھے نماز پڑھتے اور تلاوت کرتے رہتے۔ قریش کے نوجوان، عورتیں اور بچے اُن کے گرد اکٹھے ہو جاتے اور بغور تلاوت سنتے۔ تلاوت اختتام پذیر ہوتی تو وہ لوگ گھروں کو چلے جاتے اور وہی باتیں دہراتے رہتے جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سن کر جاتے۔ قریش کے سرداروں کو یہ بات کہاں ہضم ہوتی۔ انھوں نے ابن دغنہ سے رابطہ کیا اور کہا کہ ابوبکر کو روکو ورنہ اُسے اپنی پناہ سے نکال دو۔ ابن دغنہ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاں گیا اور اُن سے کہا کہ یوں کھلے بندوں نماز پڑھنی اور قراء ت کرنی چھوڑ دو ورنہ میں اپنی پناہ واپس لیتا ہوں۔
فرمایا: ’’تم اپنی پناہ واپس لو۔ مجھے اللہ کی پناہ کافی ہے۔‘‘ [1]
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دعوت دین کا کام جاری رکھا۔ مکہ کے کئی سرداروں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ ان میں عثمان بن عفان، زبیر بن عوام، طلحہ بن عبیداللہ، سعد بن ابی وقاص، عثمان بن مظعون، ابوعبیدہ بن جراح اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم جیسے نامی گرامی سردار شامل تھے۔ جو سردارانِ قریش مسلمان ہوئے تھے، وہ تو کسی طرح مشرکین مکہ کے قابو میں نہیں آئے، البتہ جو غلام مسلمان ہوئے، ان بیچاروں
[1] صحیح البخاري، حدیث: 2297۔