کتاب: رجال القرآن 1 - صفحہ 27
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لبوں پر ایک ہی سوال تھا:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟‘‘
بنت خطاب ابھی تک خائف تھیں۔ بولیں:
’’آپ کی والدہ سن رہی ہیں۔‘‘ فرمایا: ’’ان کے متعلق بے فکر رہیے۔‘‘
بنت خطاب نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحیح سلامت ہیں۔
آپ نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں، انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہوں۔بنت خطاب نے بتایا کہ وہ ارقم بن ابی ارقم کے مکان پر ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اُن کی خدمت میں لے چلو۔ میں انھیں دیکھ کر اطمینان کرنا چاہتا ہوں۔
راستے خالی ہوئے اور لوگوں کی آمد و رفت تھمی تو دونوں خواتین حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سہارا دیے ہوئے روانہ ہوئیں۔ تینوں افراد دارِ ارقم میں داخل ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی یہ حالت دیکھی تو آپ کو شدید رقت ہوئی۔[1]
مکہ میں مسلمانوں کا عرصۂ حیات تنگ ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہجرت حبشہ کی اجازت دی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی رختِ سفر باندھا اور حبشہ کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ راستے میں سیدالقارہ ربیعہ بن فہیم المعروف بہ ابن دغنہ سے ملاقات ہوئی۔ پوچھا: کہاں کا ارادہ ہے۔ فرمایا: حبشہ جاتا ہوں۔ پوچھا: کاہے کو۔ فرمایا: تمھاری قوم نے جینا دو بھر کر دیا۔ ابن دغنہ نے کہا: نہیں ابوبکر! تم جیسے آدمی شہر چھوڑ کر نہیں جایا کرتے نہ انھیں شہر سے نکالا جاتا ہے۔ تم واپس چلو۔ اپنے شہر میں اپنے رب کی عبادت کرو۔ میں تمھیں پناہ دیتا ہوں۔
[1] البدایۃ والنھایۃ:3؍33۔34