کتاب: رجال القرآن 1 - صفحہ 26
نے تو بدتمیزی کی حد کر ڈالی۔ اُس نے اپنا جوتا اتارا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے چہرۂ مبارک پر پے در پے کئی ضربیں لگائیں۔ چہرہ متورم ہوگیا۔ پہچانے نہیں جاتے تھے۔ بنوتیم جو آپ رضی اللہ عنہ کے اہل قبیلہ تھے، انھیں پتہ چلا تو وہ دوڑے آئے۔ مشرکین کو پرے ہٹایا اور آپ کو ایک چادر میں اٹھائے گھر لے آئے۔ چوٹیں ایسی شدید تھیں کہ بنوتیم نے سمجھا آپ زندہ نہیں رہیں گے۔ انھوں نے مسجد میں اعلان کر دیا کہ اگر ابوبکر نے وفات پائی تو ہم عتبہ کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ہوش میں لانے کی کوشش کرتے رہے۔ جب آپ ہوش میں آئے تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیریت دریافت فرمائی۔ قبیلہ والوں نے سخت سست کہا کہ اسی کی وجہ سے اس حال کو پہنچے اور ہوش میں آتے ساتھ ہی اسی کا حال پوچھتے ہو۔ اُن کی والدہ سے کہا کہ اسے کچھ کھلاؤ پلاؤ اور خود چل دیے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہ کچھ کھاؤں گا نہ پیوں گا۔ پہلے یہ بتاؤ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کس حال میں ہیں۔ والدہ نے جواب دیا کہ واللہ! مجھے تمھارے صاحب کے بارے میں کچھ علم نہیں۔
فرمایا: ’’بنت خطاب کی طرف جایئے۔ اُن سے پوچھ کر آیئے۔‘‘
وہ بنت خطاب کے ہاں گئیں۔ بنت خطاب کو خدشہ ہوا کہ کہیں یہ مشرکین کی جاسوس نہ ہو۔ انھوں نے کہا: ’’میں ابوبکر اور محمد بن عبداللہ کو نہیں جانتی۔‘‘
والدہ نے اُن کی منت سماجت کی کہ آپ میرے ساتھ چلیے اور ابوبکر سے خود بات کر لیجیے۔ ان کی حالت بہت نازک ہے۔ وہ تشریف لائیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس حال میں دیکھا تو دل بھر آیا۔ بولیں: ’’جن لوگوں نے تمھارا یہ حال کیا ہے وہ یقینا بدقماش ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن سے ضرور انتقام لے گا۔‘‘