کتاب: رجال القرآن 1 - صفحہ 25
’’کیا کہا انھوں نے!‘‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حیران ہو کر پوچھا:
’’اُس نے کہا ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔‘‘
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ سن کر پہلے تو خاموش رہے، پھر فرمایا: ’’اگر انھوں نے یہ کہا ہے تو بلاشبہ سچ ہی کہا ہے۔‘‘
سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پہنچے۔ پوچھا: ’’ابوالقاسم! یہ میں کیا سن رہا ہوں؟!‘‘
’’کیا سنا ہے آپ نے ابوبکر!؟‘‘
’’میں نے سنا ہے کہ آپ توحید الٰہی کی دعوت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابوبکر! یہ بات درست ہے۔ میرے رب نے مجھے بشیر و نذیر بنایا ہے۔ اُس نے مجھے تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فوراً کہا: واللہ! میں نے آپ کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔ بلاشبہ آپ رسالت کے مستحق ہیں۔ لایئے، اپنا ہاتھ دیجیے میں آپ کی بیعت کرتا ہوں۔‘‘
یوں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ شرفائے عرب میں وہ پہلے آدمی تھے جو ایمان لائے۔ انھوں نے اسلام کے لیے اپنا دھن دولت، جان و مال سب کچھ پیش کر دیا۔
قبولِ اسلام کے بعد اُنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا کہ ہمیں بیت اللہ میں داخل ہو کر کھلے عام اسلام کی دعوت دینی چاہیے۔ آپ نے اجازت دی تو تمام مسلمان بیت اللہ میں گئے اور اعلانیہ اسلام کی دعوت دے ڈالی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تقریر کا آغاز کیا تو مشرکین مکہ اُن پر پل پڑے اور زد و کوب کرنے لگے۔ عتبہ بن ابی ربیعہ