کتاب: رجال القرآن 1 - صفحہ 249
اسی پر عمل کیا جائے گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا ثالث (حکم) حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو بنایا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا نام پیش کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں موجود قاتلین عثمان ان کے اس فیصلے پر بگڑ گئے۔ وہ تو یہ چاہتے تھے کہ یونہی جنگ جاری رہے۔ فریقین کی قوت ضائع ہو اور وہ ان سے بدلہ لینے کے لیے ایکا نہ کر پائیں۔ جب انھوں نے دیکھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی صلح پر راضی ہیں تو وہ ان کے خلاف ہوگئے اور لشکر سے علیحدگی اختیار کر لی۔ انھی افراد نے بعد ازاں خوارج کا روپ دھارا۔ 17صفر 37ھ کو فریقین میں معاہدۂ صلح تحریر کیا گیا۔ بعدازاں حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کے ہمراہ شام واپس چلے گئے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نہروان میں خوارج کے خلاف نبرد آزما ہوگئے۔ بعدازاں خوارج نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اپنے تین سورما انھوں نے اس مہم کے لیے تیار کیے۔ ان تینوں نے ایک ہی دن فجر کے وقت شام اور کوفہ میں ان تینوں پر حملہ کیا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر حملہ آور کا وار اوچھا پڑا اور وہ معمولی زخمی ہوئے۔ حملہ آور کو فوراً گرفتار کر لیا گیا۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اس روز بیمار تھے۔ گھر سے ہی نہیں نکلے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر حملہ کرنے والے کا نام ابن ملجم تھا۔ اس کے وار کاری ثابت ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ زخمی ہو کر بعد ازاں جام شہادت نوش کر گئے۔[1]
یہ 21رمضان المبارک 40 ھ کی صبح کا واقعہ ہے۔[2]
[1] تاریخ الطبري:5؍1489۔
[2] التاریخ الکبیر للبخاري:1؍99۔