کتاب: رجال القرآن 1 - صفحہ 248
جنگ کی آگ بھڑکا دی، جس کے نتیجے میں جنگ جمل کا افسوسناک سانحہ پیش آیا۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سمیت بیس ہزار مسلمان اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ جنگ کے اختتام پر تمام اہل بصرہ نے حضرت علی ابن ابی طالب کی بیعت کر لی اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مدینہ واپس تشریف لے آئیں۔
اب حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اہل شام کی طرف متو جہ ہوئے اور حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو ان کے ہاں روانہ کیا۔ انھوں نے آکر بتایا کہ اہل شام کہتے ہیں پہلے عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل ہمارے حوالے کیجیے، پھر ہم آپ کی بیعت کریں گے۔ یہ سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پیش قدمی کی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اس مرتبہ بھی والد کی مخالفت کی کہ آپ کو اہل شام سے لڑائی نہیں کرنی چاہیے۔ بہت سے مسلمانوں کا خون بہہ جائے گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کا مشورہ نہیں مانا اور پیش قدمی کرکے صفین میں جا پڑاؤ کیا۔[1]
حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما قاتلین عثمان سے انتقام لینے کے سلسلے میں نہایت سنجیدہ، پر عزم اور غایت درجہ مخلص تھے ۔ انھوں نے اپنے طور پر مصر میں دندناتے پھرتے ان فتنہ پردازوں کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا تھا جنھوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر دھاوا بولنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ انھیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیش قدمی کا پتہ چلا تو انھوں نے شام کے عمائدین سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ قاتلین عثمان(رضی اللہ عنہ)کی حوالگی یا پھر جنگ۔
چنانچہ صفین میں خونریز لڑائی ہوئی، جس کے نتیجے میں ستر ہزار مسلمان مارے گئے۔ لڑائی کے تیسرے روز فریقین کی طرف سے جنگ بندی کی آوازیں اٹھیں۔ یہ طے پایا کہ فریقین کی طرف سے ایک ایک آدمی ثالثی کا کردار ادا کرے گا۔ وہ جو فیصلہ کرے گا
[1] البدایۃ والنہایۃ:7؍240۔