کتاب: رجال القرآن 1 - صفحہ 247
اس لیے انھیں وہیں جا کر تمام معاملات نمٹانے چاہئیں۔[1] اسی اثنا میں انھیں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اور حضرات طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کی بصرہ روانگی کی اطلاع ملی، چنانچہ انھوں نے پہلے بصرہ جانے اور ان محترم حضرات سے معاملات طے کرنے کا منصوبہ بنایا۔ صحابۂ کرام میں بڑی تعداد ایسے افراد کی بھی تھی جنھیں ان تمام معاملات سے کچھ سروکار نہیں تھا۔ فتنوں سے دامن بچا کر اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ گئے تھے۔ ان میں حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت اسامہ بن زید، حضرت محمد بن مسلمہ، حضرت سلمہ بن اکوع، حضرت عمران بن حصین، حضرت سعید بن عاص، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص، حضرت صہیب بن سنان رومی، حضرت ابوایوب انصاری، حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی سرحy نمایاں طور پر شامل تھے۔ معاملات نہایت مشتبہ تھے۔ یوں ہر کوئی اپنے اپنے اجتہاد پر کاربند تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرات طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے لشکروں نے بصرہ پہنچ کر قاتلین عثمان کے ایک سرغنہ حکیم بن جبلہ اور اس کے ساتھیوں کو قتل کر ڈالا تھا۔ ادھر حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اپنے لشکر سمیت بصرہ پہنچ چکے تھے۔ فریقین اس امر پر متفق تھے کہ قاتلین عثمان سے انتقام لینا چاہیے تاہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ حالات ذرا قابو میں آئیں تو یہ کام کیا جائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرات طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے خیال میں یہ کام اولین فرصت میں کرنا چاہیے تھا اور خلیفہ اگر اس پر قادر نہیں تھا تو وہ خود یہ کام کررہے تھے۔ حضرت قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ اِس کوشش میں مصروف تھے کہ فریقین میں صلح ہو جائے۔ اُن کی کوشش بار آور ثابت ہوئی تھی اور فریقین صلح پر راضی تھے کہ سبائیوں نے
[1] الثقات لابن حبان:2؍284۔