کتاب: رجال القرآن 1 - صفحہ 246
خون کا بدلہ لیا جائے گا۔ ادھر حضرت طلحہ بن عبیداللہ اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے اجازت مانگ لی تھی کہ ہمیں مدینہ سے جانے دیجیے، پھر ہم جانیں اور ہمارا کام۔ آپ نے انھیں اجازت دے دی۔[1]
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے وزرا ملک کے مختلف شہروں میں پہنچ رہے تھے۔ شام کی وزارت آپ نے حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دینی چاہی لیکن انھوں نے معذرت کر لی اور کہا کہ مجھ سے یہ بار گراں نہیں اٹھایا جائے گا۔ وہ اسی رات مدینہ سے روانہ ہو کر مکہ پہنچ گئے۔‘‘[2]
ان کے انکار پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو شام کی وزارت پر روانہ کیا۔ وہ شام کے قریب پہنچے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھڑ سوار دستے نے استقبال کیا۔ اس کے سالار نے حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ عثمان(رضی اللہ عنہ)کے وزیر ہیں تو خوش آمدید۔ کسی اور کی طرف سے آئے ہیں تو بہتر ہوگا کہ یہیں سے پلٹ جائیے۔ حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ خاموشی سے پلٹ آئے۔[3]
دوسری طرف حضرات طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما مدینہ سے نکل کر ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں مکہ تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید ہوئے چار مہینے گزر چکے تھے لیکن ان کے قاتل ابھی تک دندناتے پھرتے تھے۔ حضرات طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے طے کیا کہ بصرہ چل کر قاتلین عثمان کو ڈھونڈنا اور ان سے انتقام لینا چاہیے۔ ادھر حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مرکز خلافت کوفہ منتقل کرنے کا ارادہ کرلیا تھا اور وہ روانہ ہونے والے تھے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ان کے اس اقدام کی بھی مخالفت کی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ ان کے خیر خواہ کوفہ و بصرہ میں ہیں،
[1] تاریخ الطبري: 5؍368۔
[2] سیر أعلام النبلاء: 3؍224۔
[3] تاریخ الطبري: 5؍466۔