کتاب: رجال القرآن 1 - صفحہ 245
تھے۔ انھوں نے شام کے والی نامور صحابیٔ رسول حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے کہہ دیا تھا کہ عثمان(رضی اللہ عنہ)ہمارے خلیفہ تھے۔ ہمیں ان کے خون کا بدلہ لینا ہے۔ اگر آپ ہمیں بدلہ دلوا سکتے ہیں تو ٹھیک ورنہ ہم کسی اور کو امیر بنا لیتے ہیں۔[1]
ان حالات میں حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کا مطالبہ کیا اور یہ اعلان کیا کہ جب تک قاتلین عثمان ہمارے حوالے نہیں کیے جاتے، ہم علی بن ابی طالب کی بیعت نہیں کریں گے۔ مدینہ میں ہی حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کر دیا تھا کہ جتنی جلدی ہو سکے ، قاتلین عثمان سے قصاص لیجیے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ عذر پیش کیا تھا کہ میں ایسے افراد کو کیونکر کٹہرے میں کھڑا کروں جو میرے قابو میں نہیں۔ ذرا حالات تو قابو میں آنے دیجیے۔ ورنہ ہم خانہ جنگی کا شکار ہوجائیں گے۔[2]
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بصرہ جاتا ہوں اور وہاں سے ایک لشکر لے آتا ہوں، پھر ہم قاتلین عثمان سے بدلہ لے پائیں گے۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے بھی کہا کہ میں کوفہ جا کر ایک لشکر لے آتا ہوں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس پر بھی راضی نہیں ہوئے۔[3]
در اصل قاتلین عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل تھے اور ان کا بڑا اثر و رسوخ تھا۔ آپ کو خدشہ تھا کہ ان پر فرداً فرداً ہاتھ ڈالا گیا تو ان کے لیے ان کے تمام اہل قبیلہ بھی بھڑک اٹھیں گے اور لڑائی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مکہ سے مدینہ واپس آرہی تھیں کہ راستے میں شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کی خبر ملی۔ وہیں سے واپس پلٹ گئیں اور مکہ پہنچ کر اعلان کردیا کہ عثمان کے
[1] الأنساب:4؍418۔
[2] تاریخ الطبري:5؍460۔
[3] تاریخ الطبري:5؍361۔