کتاب: رجال القرآن 1 - صفحہ 244
حضرات طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما بھی مسجد میں آئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے ایک مرتبہ پھر کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں آپ کی بیعت کر لیتا ہوں ۔ ان دونوں نے کہا نہیں، ہم آپ ہی کی بیعت کریں گے۔ یوں تمام لوگوں نے بشمول صحابۂ کرام اور مہاجرین و انصار متفقہ طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی۔ اگلے روز جمعے کا دن تھا۔ آپ مسجد میں تشریف لائے اور منبر پر بیٹھے تو ان صحابۂ کرام نے بھی آکر بیعت کی جو کل بیعت کرنے سے رہ گئے تھے۔[1]
اس موقع پر صاحبزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے آپ کو مشورہ دیا کہ جب تک تمام ملک سے نمائندہ وفود آ آکر آپ کی بیعت نہ کر لیں، کسی سے بیعت نہ لیجیے۔ آپ نے جواب دیا کہ بات تو ساری اہل مدینہ کی ہے۔ اہل مدینہ نے بیعت کر لی تو بیعت واقع ہوگئی۔[2]
پھر آپ نے تمام ملک میں اپنے وزرا روانہ کیے۔ اس موقع پر بھی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو مشورہ دیا کہ ملک کے حالات بہت خراب ہیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت پر لوگ غم و غصے سے بھرے ہوئے ہیں، اس لیے آپ فی الحال عثمان(رضی اللہ عنہ)کے وزرا کو برقرار رہنے دیجیے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ مشورہ بھی قبول نہیں کیا۔‘‘[3]
ادھر ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے خلیفۂ شہید کی خون آلود قمیص اوران کی اہلیہ حضرت نائلہ رضی اللہ عنہا کی بریدہ انگلیاں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کے ہاتھ شام بھجوا دی تھیں۔ اہل شام جن میں بڑی تعداد صحابۂ کرام کی تھی، ان چیزوں کو سامنے رکھے رو رہے
[1] البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر: 4؍227۔
[2] تاریخ الطبري: 2؍482۔
[3] تاریخ الطبري: 5؍461۔