کتاب: رجال القرآن 1 - صفحہ 241
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بڑی منصف مزاج طبیعت پائی تھی۔ اپنے دور خلافت میں عمرو بن سلمہ کو اصفہان کا وزیر بنایا۔ ایک دفعہ وہ بہت سا روپیہ، شہد اور گھی کی بھری کئی مشکیں لائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا نے عمرو بن سلمہ کو پیغام بھیجا کہ تھوڑا سا شہد اور گھی بھیجو۔ انھوں نے ایک برتن میں شہد اورایک میں گھی ڈال کر ان کے ہاں بھیج دیا۔ اگلے روز حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وہ روپیہ، گھی اور شہد مسلمانوں میں تقسیم کرنے کے لیے منگایا تو دو مشکیں کم نکلیں۔ عمرو سے پوچھا تو اس نے گول مول جواب دیا۔ آپ نے ذرا سختی سے باز پُرس کی تو اُس نے بتادیا کہ دونوں مشکوں کا شہد اور گھی آپ کی صاحبزادی کے ہاں بھیجا گیا ہے۔ آپ نے وہ تمام شہد اور گھی صاحبزادی کے ہاں سے واپس منگالیا۔ ایک تاجر سے فرمایا کہ ذرا آنکیے، کتنے روپیہ کا شہد اور گھی کم ہے۔ تاجر نے آنکا تو تین روپیہ کا شہد اور گھی کم نکلا، چنانچہ پہلے وہ تین روپے صاحبزادی کے ہاں سے منگائے، پھر وہ تمام اشیاء مسلمانوں میں تقسیم کر دیں۔
یہ تھے حضرت علی رضی اللہ عنہ جو مدرسۂ نبوی کے فیض یافتہ تھے۔ ان کی عدل گستری کا ایک اور واقعہ سنیے جس کے راوی ہیں امام عامر شعبی۔
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی ایک زرہ جنگ صفین کے دن گم ہوگئی تھی جو بعد ازاں انھیں ایک عیسائی کے پاس دکھائی دی۔ آپ اسے ساتھ لیے اپنے مقرر کردہ قاضی شریح کے ہاں گئے اور قاضی صاحب سے کہا کہ یہ زرہ میری ہے۔ عیسائی نے کہا کہ نہیں، یہ زرہ میری ہے۔ قاضی صاحب نے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ثبوت طلب کیا۔ آپ نے کہا کہ ثبوت تو میرے پاس کوئی نہیں۔
قاضی صاحب نے عیسائی کے حق میں فیصلہ دیا اور زرہ اس کے حوالے کردی۔ وہ