کتاب: رجال القرآن 1 - صفحہ 240
آپ کی بیان کردہ وجوہات اور اطمینان بخش ارشادات سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بے حد تسلی ہوئی اور وہ مدینہ لوٹ آئے۔ اس موقع پر ان کا مدینہ میں رہنا اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے متعلق یہ فرمانا کہ اب یا تو میں مدینہ میں رہتا ہوں یا پھر تم، اس امر کا آئینہ دار ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آپ کے نجی معاملات کے حوالے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا جو مقام و مرتبہ تھا وہ کسی اور کو حاصل نہیں تھا۔
9 ھ میں حج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا۔ صحابۂ کرام کی بڑی تعداد ان کے ہمراہ حج کو روانہ ہوئی۔ اُدھر وہ روانہ ہوئے اِدھر سورۂ توبہ نازل ہوئی۔ سورۂ توبہ میں دو چار ایسی اہم باتیں نازل ہوئی تھیں کہ حج کے موقع پر ان کا اعلان کرنا ضروری تھا۔ ان میں سے ایک بات جاری معاہدے کے برقرار رہنے کے متعلق تھی۔ دستور عرب کے مطابق جاری معاہدے کو برقرار رکھنے یا اس کے توڑنے کا اعلان سردار قبیلہ یا اس کے خاندان کے کسی فرد کو کرنا ہوتا تھا۔ یوں حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس مقصد کے لیے روانہ فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے ہمراہ ابھی ذوالحلیفہ میں تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جا پہنچے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انھیں دیکھتے ہی دریافت فرمایا کہ امیر ہو یا مامور (ماتحت)؟ انھوں نے کہا: مامور (ماتحت) ہی ہوں، چنانچہ یہ دونوں حضرات روانہ ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ امیر حج کے فرائض انجام رہے اور حضرت علی جا بجا یہ اعلان کرتے پھرے کہ کافرجنت میں نہیں جائے گا۔ آئندہ کوئی مشرک حج نہیں کر پائے گا۔ نہ کوئی برہنہ ہو کر کعبہ کا طواف کرے گا۔ جاری معاہدے اپنی مدت پوری کریں گے۔[1]
[1] البدایۃ والنہایۃ:5؍43۔