کتاب: رجال القرآن 1 - صفحہ 24
ہوگا یا پھر تمھارے قبیلے کا۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اِس سے پہلے مجھے معلوم نہیں تھا کہ کوئی نبی آنے والا ہے اور اُس کا انتظار بھی کیا جاتا ہے۔ میں اٹھا اور سیدھا ورقہ بن نوفل کے ہاں پہنچا۔ وہ اکثر آسمان کو گھورا کرتے تھے۔ رنج و غم کے مارے سینے میں دہاڑیں گونجا کرتی تھیں۔ حسن اتفاق سے راستے میں مل گئے۔ شاید کہیں جا رہے تھے۔ میں نے امیہ بن ابی صلت کی بات بتائی تو فرمانے لگے: ’’ہاں، بھتیجے! اہل کتاب اور آسمانی کتابوں کا علم رکھنے والے تو یہی کہتے ہیں کہ نبی منتظر کا تعلق عرب کے سب سے بہتر خاندان سے ہوگا۔ میں عرب کے انساب سے واقف ہوں۔ میرے علم کی حد تک تمھارا خاندان ہی عرب کا سب سے بہتر خاندان ہے۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’چچا! نبی کیا فرمائے گا؟‘‘
بولے: ’’نبی وہی فرمائے گا جو اُس پر وحی کیا جائے گا۔ وہ ظلم نہیں کرے گا نہ ظلم کا بدلہ ظلم سے دے گا۔‘‘
چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو میں آپ پر بے چون و چرا ایمان لے آیا۔‘‘ [1]
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مکہ کے باکمال تاجر تھے۔ تجارت کی غرض سے یمن اور شام جایا کرتے تھے۔ تجارت کے سفر سے انھوں نے خاصی دولت کمائی اور مردم شناسی کا جوہر بھی اُن میں پیدا ہوا۔
ایک مرتبہ سفر سے لوٹے تو قریش کا ایک آدمی راستے میں ملا۔ اُس نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’جی! سنتے ہو! تمھارے صاحب نے کیا کہا۔‘‘
[1] تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکر:16؍ 23۔