کتاب: رجال القرآن 1 - صفحہ 239
خبر بھی بالکل سچی ہے، اس لیے یا تو تم وہ خط ہمارے حوالے کردو یا پھر ہم تمھاری جامہ تلاشی لیتے ہیں۔ عورت نے جب یہ دیکھا کہ یہ خط لیے بنا نہیں ٹلیں گے تو اس نے سر کے بال کھولے اور خط نکال کر دے دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وہ خط لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔[1]
حضرت علی رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں ایسے چاق و چوبند سپاہی کی حیثیت سے رہتے تھے جو سپہ سالار کے احکامات کا منتظر رہتا ہے۔ سپہ سالار جو حکم دے وہ فوراً اس کی تعمیل کے لیے سر گرم عمل ہوجاتا ہے۔
غزوۂ تبوک کے موقع پر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں رہنے کا حکم دیا۔ منافقین نے شور مچا دیا کہ علی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بارخاطر ہیں، اسی لیے آپ نے انھیں مدینے میں رہنے دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے منافقین کی بکواس سنی تو اسلحہ اٹھایا اور اکیلے ہی نکل کھڑے ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کی جانب عازم سفر تھے اور فی الحال جرف میں پڑاؤ کیے ہوئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں پہنچے تو عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جارہے ہیں۔ فرمایا: میں نے تم کو تمھارے اور اپنے اہل خانہ کی حفاظت کے لیے مدینہ منورہ میں رہنے کا حکم دیا تھا۔ ہم دونوں میں سے کسی ایک کو مدینے میں رہنا تھا۔ اب میں مدینہ میں رہتا ہوں یا پھر تم۔‘‘ پھر فرمایا: کیا تمھیں پسند نہیں کہ میرے ساتھ تمھاری وہی حیثیت ہو جو موسیٰ کے ساتھ ہارون کی تھی۔ اتنی بات البتہ ضرور ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘[2]
[1] صحیح البخاري، حدیث: 6259، والسیرۃ النبویۃ لابن ہشام: 4؍16، والکامل لابن الأثیر:2؍242۔
[2] صحیح البخاري، حدیث: 4416، وصحیح مسلم، حدیث: 2404۔