کتاب: رجال القرآن 1 - صفحہ 23
وہ مجھے بت کدے میں اکیلا چھوڑ کر چلے گئے۔ میں ایک بت کے قریب گیا اور کہا: ’’میں بھوکا ہوں۔ مجھے کھانا کھلاؤ۔ میرے پاس پہننے کو کچھ نہیں۔ مجھے پہننے کو کپڑے دو۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے ایک بڑا پتھر اٹھایا اور اُسے کھینچ مارا۔ وہ منہ کے بل زمین پر جا رہا۔‘‘ [1]
چہرہ مہرہ
سپیدرو، نازک اندام، رخسار ہلکے، کمر قدرے جھکی ہوئی، دبلا پتلا چہرہ، آنکھیں گہری، پیشانی بلند، ہاتھ پاؤں بالوں سے عاری۔‘‘
یہ تھے ہمارے ممدوح جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ۔[2]
اسلام کے زیر سایہ
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بتدریج اسلام کے شناسا ہوئے تھے۔ اُن کا اپنا بیان ہے کہ ایک روز میں کعبہ کے صحن میں بیٹھا تھا۔ زید بن عمرو بن نفیل بھی وہیں تشریف فرما تھے۔ امیہ بن ابی صلت وہاں سے گزرا تو ٹھہر گیا۔ زید کو مخاطب کرکے کہنے لگا: ’’خیر کے متلاشی! کہو، کیسے ہو؟‘‘
زید نے جواب دیا کہ خیریت سے ہوں۔
’’اور سناؤ، کچھ ملا؟‘‘
’’نہیں لیکن میں نے تلاش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔‘‘
اِس پر امیہ نے کہا: ’’روز قیامت تو سارے دین سوائے ایک دین کے جس کا اللہ نے فیصلہ کر رکھا ہے، بے کار ثابت ہوں گے۔ آگاہ رہنا، نبی منتظر یا تو ہمارے قبیلے کا
[1] المصباح المضییٔ لمحمد بن علی الأنصاري: 1؍ 38۔
[2] الطبقات الکبرٰی لابن سعد: 3؍ 188۔