کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 85
(اے نبی! کیا ہم نے (اسلام کے لیے) تیرا سینہ نہیں کھول دیا؟۔) حضرت ابراہیم خالقِ کائنات کی بارگاہ میں التجائیں کرتے ہیں : ﴿وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ﴾ [1] (اور آنے والے لوگوں میں سچائی کے لیے میری یاد کو باقی رکھ۔) جبکہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو رب العالمین خود فرماتے ہیں : ﴿وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ﴾ [2] (اور ہم نے (اے نبی) آپ کے لیے آپ کا ذکر بلند کر دیا ہے۔) چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے رفعت شان ورفعنا لک ذکرک دیکھے حضرت موسیٰ علیہ السلام بارگاہِ ارحم الراحمین میں دعا کرتے ہیں : ﴿وَ یَسِّرْ لِیْ اَمْرِیْ﴾ [3] اور میرے میرا کام آسان کر دے۔ جبکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ خود فرماتا ہے: ﴿فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا﴾ [4] (پس بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے، یقینا تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔) حضرت موسیٰ علیہ السلام بہ عجلت کوہِ طور پر گئے تو ربِ کائنات نے پوچھا: ﴿وَ مَآ اَعْجَلَکَ عَنْ قَوْمِکَ یٰمُوْسٰی﴾ [5] اے موسیٰ! تو اپنی قوم چھوڑ کر جلدی کیوں آ گیا؟ موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا: ﴿قَالَ هُمْ أُولَاءِ عَلَى أَثَرِي وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَى ﴾ [6]
[1] مشکوٰۃ، باب فضائل سید المرسلین۔ [2] سورۃ طہ [3] سورۃالانشراح: 1۔