کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 83
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ فَيُضِلُّ اللَّهُ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ﴾ [1] (ہم نے ہر ایک نبی کو اس کی قوم کی زبان میں بھیجا تا کہ وہ انہیں (اﷲ کا پیغام) واضح طور پر سمجھائیں ، پس جس کو چاہا گمراہ کیا اور جس کو چاہا ہدایت سے نوازا۔) اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا﴾ [2] (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے آپ کو پوری انسانیت کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے۔) دیکھی نہیں کسی نے اگر شانِ مصطفی دیکھیے کہ جبریل ہے دربانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم لطفِ خدائے پاک کی تصویر کھنچ گئی پھرنے لگے جب آنکھ میں احسانِ مصطفی پھیلا ہوا ہے اسود و احمر کے واسطے صحن عرب سے تابہ عجم خوانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم رکھے وہ یاد خسرو پرویز کا مآل پہنچا ہو جس کے ہاتھ میں فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم مرے ہزار دل ہوں تصدیقِ حضور پر میری ہزار جان ہوں قربانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم رشتہ میرا خدا کی خدائی سے ٹوٹ جائے چھوٹے مگر نہ ہاتھ سے دامانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اَلْفَضْلُ مَاشَهِدَتْ بِهِ الْاَعْدَا (خوبی وه جسے دشمن مانے ) ایک مرتبہ دشمن و معاند رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ابو جہل نے مہبط نور ہدی، صاحب قاب قوسین اور ادنی اور خیر الوری جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر کہا: ((إِنَّا لَا نُکَذِّبُکَ وَلٰکِنْ نُکَذِّبُ مَا جِئْتَ بِہِ)) [3]
[1] "نبیاء علیہم السلام کے بارے میں یہ بات مسلم ہے کہ وہ گناہ کا ارتکاب نہیں کرتے۔ ان کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے اور غیر مشروط اتباع اسی کی کی جا سکتی ہے جو معصوم ہو۔ اس سے عصمتِ انبیاء کا حق ہونا خود بخود واضح ہوجاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان سے کبھی کوئی قصور سر زد نہیں ہوا۔ قصور کا سرزد ہونا بشریت کا تقاضا ہے۔ نا دانستہ کسی قصور کے سر زد ہونے اور دانستہ کسی گناہ کا ارتکاب کرنے میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ پھر وحیِ الٰہی ان کے قصوروں پر انہیں متنبہ کردیتی ہے اور وہ فوراً رجوع کر لتیے ہیں اس لیے لوگوں کے سامنے کسی غلط مثال کے پیش ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ قرآن نے خود بعض انبیاء علیہم السلام کے بعض قصوروں کا ذکر اس طور پر کیا ہے کہ انہیں ان پر متنبہ کیا گیا اور وہ فوراً اللہ کی طرف احساس عبدیت کے ساتھ رجوع ہوگئے۔ انبیاء علیہم السلام اپنے قصوروں کی معافی کے لیے دعا بھی کرتے رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا تھی:۔ ﴿وَالَّذِي أَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ﴾ (شعراء:٨٢ ) " اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ جزا کے دن وہ میری خطائیں معاف کر دے گا۔ "اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزانہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کیا کرتے تھے۔ " البخاری ،محمد بن إسماعيل ، أبو عبد الله الجعفی (المتوفى: 256هـ):بخاری کتاب الدعوات۔ (22)