کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 66
ان کے قصوروں پر انہیں متنبہ کردیتی ہے اور وہ فوراً رجوع کر لیتے ہیں اس لیے لوگوں کے سامنے کسی غلط مثال کے پیش ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ قرآن نے خود بعض انبیاء علیہم السلام کے بعض قصوروں کا ذکر اس طور پر کیا ہے کہ انہیں ان پر متنبہ کیا گیا اور وہ فوراً اللہ کی طرف احساس عبدیت کے ساتھ رجوع ہوگئے۔ انبیاء علیہم السلام اپنے قصوروں کی معافی کے لیے دعا بھی کرتے رہے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا تھی:
وَالَّذِي أَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ [1]
اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ جزا کے دن وہ میری خطائیں معاف کر دے گا۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کیا کرتے تھے۔ [2]
لوگوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انبیاء پر کیسے فضیلت دی ہے ؟ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ﴾[3]
اور ہم نے جو بھی رسول بھیجا وہ اپنی ہی قوم کی بولی بولتا تھا تا کہ ان پر ہر بات کو وضاحت کے ساتھ بیان کر سکے۔
اور اللہ تعالیٰ نےجنابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا ہے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ ﴾[4]
اور ہم نے آپ کو (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) سب لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔
لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم جن و انس سب کے رسول ہیں ۔
خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم
[1] سورت الانبیاء:29
[2] سورت الفتح:آیت 1،2