کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 65
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء کرام علیھم السلام اور اہل آسمان پر فصیلت دی ہے لوگوں نے پوچھا اہل آسمان پر فضیلت کیسے دی ہے ؟ فرمانے لگے اللہ تعالیٰ نے آسمان والوں کو کہا ہے : ﴿وَمَنْ يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلَهٌ مِنْ دُونِهِ فَذَلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ ﴾[1] (اور ان میں سے جو کوئی کہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا میں بھی معبود ہوں سو اسے ہم دوزخ کی سزا دیں گے۔اور ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔) اور اللہ تعالیٰ نےجناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا ہے: ﴿إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا (1) لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا ﴾[2] (بیشک (اے نبی) ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی ہے۔ اے نبی! ہم نے آپ کو واضح فتح عطاکردی تاکہ اللہ تعالیٰ تیری اگلی اور پچھلی لغزشیں معاف کرے۔ ۔ ۔) اس آیت مبارکہ کا دوسرا ترجمہ : "تاکہ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے معاف فرمادے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے اور پچھلے (بہ ظاہر) خلافِ اولیٰ سب کام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی نعمت پوری کردے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صراطِ مستقیم پر براقرار رکھے۔" "نبیاء علیہم السلام کے بارے میں یہ بات مسلم ہے کہ وہ گناہ کا ارتکاب نہیں کرتے۔ ان کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے اور غیر مشروط اتباع اسی کی کی جا سکتی ہے جو معصوم ہو۔ اس سے عصمتِ انبیاء کا حق ہونا خود بخود واضح ہوجاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان سے کبھی کوئی قصور سر زد نہیں ہوا۔ قصور کا سرزد ہونا بشریت کا تقاضا ہے۔ نا دانستہ کسی قصور کے سر زد ہونے اور دانستہ کسی گناہ کا ارتکاب کرنے میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ پھر وحیِ الٰہی
[1] سورت الشعراء: 84 [2] سورت الانشراح:آیت 4 [3] ابن حبان: کتاب الاسراء،حدیث3382، حسن لغیرہ