کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 51
﴿أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً﴾ [1] (کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کی ہرچیز کو ہمارے کام میں لگا رکھا ہے ۔ اور تمہیں اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں ۔ بعض لوگ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب کے جھگڑا کرتے ہیں ۔ تسخیر کا مفہوم تسخیر(subjugation,making serviceable، Capture) کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ انسان مخلوقات ربانی کون اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال کر جیسا چاہتا ہے ان سے کام لے لیتا ہے جیسے لوہا (Iron) درخت،مٹی وغیرہ۔ جبکہ تسخیر کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض اشیاء کی تخلیق ہی ایسے کی ہے کہ وہ خود بخود انسان کی خادم ہیں جیسے سورج ، چانداور ستارے وغیرہ۔ مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ﴾ [2] (اور اس نے تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتوں کو پورا کیا ) یہاں ظاہری نعمتوں سے مراد وہ انعامات و عطیات ربانی ہیں جو تخلیق آدم سے لے کر عصر حاضر تک برابر معلو م ومتعارف اور متداول بین الناس ہیں اور جن سے ہر عہد کا انسان بخوبی واقف ہونے کے ساتھ ساتھ مستفید بھی ہوتا رہا ہےجبکہ باطنی نعمتوں سے مراد جمیع اشیاء کے مخفی فوائد ہو سکتے ہیں مثلاً مادہ اورتوانائی کے وہ سارے پوشیدہ اسرار و حقائق جو سائنسی تجربات کے نتائج میں منکشف ہوئے ہیں (جیسے بجلی، بھاپ، جوہری توانائی، شمسی توانائی وغیرہ) اور جن کو عصر حاضر کا انسان مسخر کر کے خوب فائدہ اٹھا رہا ہے۔
[1] قرآن اور ماڈرن سائنس از ڈاکٹر ذاکر نائیک [2] سورۃالنمل17تا19