کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 46
اللہ کی کیا مراد ہے؟ اس کے ذریعے بیشتر کو گمراہ کرتا ہے اور اکثر لوگوں کو راہ راست پر لاتا ہے۔ اور گمراہ تو صرف فاسقوں کو ہی کرتا ہے۔) مچھر کی تمثیل(مثال بیان کرنے) کی معنویت "جو لوگ تمثیل کی معنویت پر غور کرکے اسے قبول کرنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لیے ہدایت کا راستہ آسان کردیتا ہے۔ لیکن جو لوگ متذکرہ بالا رویہ اختیار کرتے ہیں ، ان کے لیے اللہ کا قانون حرکت میں آتا ہے اور گمراہی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ محض یہ ایک عمل ان کی گمراہی کا فیصلہ کردیتا ہے بلکہ یہ عمل اور یہ سوچ اصلاً ان کے اس رویے کا نتیجہ ہوتی ہے جسے قرآن کریم نے فسق قرار دیا ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا کہ اللہ صرف فاسقوں کو گمراہ کرتا ہے۔ یعنی اللہ کا قانون جو بندوں کے اعمال کے مطابق حرکت میں آتا ہے اس قانون کے مطابق اس وقت گمراہی کا فیصلہ ہوتا ہے جب کوئی شخص فِسق کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ اس کے بعد اگلی آیت کریمہ میں پروردگار نے خود فاسقین کی وضاحت فرمادی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی نگاہ میں فسق سے کیا مراد ہے۔" [1] " کفر و باطل کی تحقیرو تذلیل کیلئے مثال کا بیان : یعنی کوئی ایسی مثال جو حقیقت امر کو پوری طرح واضح کردے، کہ مثال کا مدعا و مقصود یہی ہوتا ہے کہ کسی غیر محسوس چیز کو کسی محسوس چیز سے تشبیہ دے کر واضح کیا جائے، تاکہ اس کے سمجھنے میں کوئی دقت و دشواری باقی نہ رہے، اس لیے ضرب الامثال کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ عمدہ اور عظیم چیزوں کیلئے عمدہ اور عظیم چیزوں کی مثال دی جائے اور گھٹیا اور حقیر چیزوں کی توضیح کیلئے گھٹیا اور حقیر چیزوں کی مثال دی جائے، تاکہ مقصد پوری طرح واضح ہوجائے۔ لہذا قرآنی امثال اس کی عظمت شان کے خلاف نہیں بلکہ اس کی فصاحت و بلاغت کا تقاضا ہیں ۔ جن لوگوں نے ان مثالوں کی بناء پر قرآن حکیم پر اعتراض کیا انہوں نے دراصل اپنی حماقت، اور جہالت و سفاہت کا
[1] تفسیر بیان القرآن از ڈاکٹر اسرار احمد [2] سورۃ البقرہ:26