کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 44
بلکہ اتنا بودا اور ناپائیدار ہوتا ہے کہ ہاتھ کے معمولی سے اشارے سے نیست و نابود ہوجاتا ہے۔ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو معبود، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا بالکل ایسے ہی بے فائدہ ہے، کیونکہ وہ کسی کے کام نہیں آسکتے۔ اللہ کے سوا تمام سہارے بیکار ہیں ، اگر وہ کوئی مدد کرسکتے تو گزشتہ اقوام کو تباہی سے بچا لیتے، مگر دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ انہیں نہیں بچا سکے۔" [1] "اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے شرک کی قباحت کو ایک مثال کے ذریعے واضح کیا کہ جو لوگ اللہ کے سوا غیروں کو اپنا یارو مددگار مانتے ہیں اور ان کے سامنے سر جھکاتے ہیں ، ان کی مثال مکڑی اور اس کے جالے کی سی ہے۔ مکڑی اپنا جالا اپنے ارد گرد بن کر سمجھتی ہے کہ اب وہ سردی گرمی اور ہر دشمن سے محفوظ ہے، لیکن وہ جالا کتنا کمزور ہوتا ہے اس کا علم سب کو ہے۔ یہی حال مشرکوں اور ان کے اولیاء کا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اصنام ان کے کام آئیں گے۔ حالانکہ ان کی عاجزی اور بے بضاعتی کا جو حال ہے وہ سب کو معلوم ہے کہ اگر ایک مکھی بھی ان بتوں پر بیٹھ جائے تو اسے بھگانے کی ان کے اندر سکت نہیں ، اور یہ بات اتنی واضح ہے کہ ادنیٰ عقل کا انسان بھی اسے سمجھتا ہے، لیکن شرک نے ان کی عقلوں پر پردہ ڈال دیا ہے اس لیے انہیں کچھ بھی سمجھ نہیں آتا۔ آگے اللہ تعالیٰ نے دھمکی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ مشرکین اس کے سوا جن باطل معبودوں کی پرستش کرتے ہیں اسے ان معبودوں کا خوب علم ہے اور وہ غالب و حکیم ہے۔ ان مشرکانہ اعمال کا بدلہ انہیں ضرور دے گا۔ آخر میں فرمایا کہ اس طرح کی مثالوں سے مقصود یہ ہے کہ لوگ توحید و شرک کے مسائل کو اچھی طرح سمجھ لیں ، لیکن اس کی توفیق بھی اللہ انہی کو دیتا ہے جو اللہ کی ذات و صفات کا راسخ علم رکھتے ہیں اور جو دلائل و براہین ان کی نگاہوں سے گزرتے ہیں ان میں غور و فکر کرتے ہیں ۔" [2]
[1] سورۃ العنکبوت:41تا43 [2] Ditto-3: P98 [3] قرآن اور جدید سائنس از ڈاکٹرذاکر نائیک