کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 40
کی نباتی زندگی کے لیے درکار ہے، اور پانی کے اندر ٹھیک وہ اوصاف موجود ہونا جو حیوانی اور نباتی زندگی کی ضروریات کے مطابق ہیں اور اس پانی کا پے در پے سمندروں سے اٹھایا جانا اور زمین کے مختلف حصوں میں وقتا فوقتا ایک باقاعدگی کے ساتھ برسایا جانا، اور زمین، ہوا، پانی اور درجہ حرارت وغیرہ مختلف قوتوں کے درمیان ایسا متناسب تعاون قائم کرنا کہ اس سے نباتی زندگی کو نشو ونما نصیب ہو اور وہ ہر طرح کی حیوانی زندگی کے لیے اس کی بے شمار ضروریات پوری کرے، کیا یہ سب کچھ ایک حکیم کی منصوبہ بندی اور دانشمندانہ تدبیر اور غالب قدرت و ارادہ کے بغیر جو خود بخود اتفاقًا ہوسکتا ہے، اور کیا یہ ممکن ہے کہ یہ اتفاق حادثہ مسلسل ہزار ہا برس بلکہ لاکھوں کروڑوں برس تک اسی باقاعدگی سے رونما ہوتا چلا جائے؟ صرف ایک ہٹ دھرم آدمی ہی جو تعصب میں اندھا ہوچکا ہو، اسے ایک امر اتفاقی کہہ سکتا ہے، کسی راستی پسند عاقل انسان کے لیے ایسا لغو دعوی کرنا اور ماننا ممکن نہیں ہے۔" [1]
جب اللہ تعالیٰ اکیلا صانع ، خالق، مالک ، رازق، اور رب ہے تو پھر موسم سرما ہو یا گرما فصل بہار ہو یا خزاں غمی ہو یا خوشی ، مرض ہو یا صحت ہر حال میں اس توحید کے گیت الاپنے چاہیئں :
خودی کا سر نہاں لَا اِلٰہ اللہ خودی ہے تیغ فساں لَااِلٰہ اِلَا اللہ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں ، لا الہٰ الا اللہ
کیا ہے تو نے متاعِ غرور کا سودا فریب سودوزیاں لَااِلٰہ اِلَا اللہ
یہ مال و دولت دنیا، یہ رشتہ و پیوند بتانِ وہم و گماں ، لا الہٰ الا اللہ
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری نا ہےزماں ، نامکاں لَااِلٰہ اِلَا اللہ
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں مجھے ہے حکم اذاں ، لا الہٰ الا اللہ