کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 37
بیان میں نکتہ توحید آ تو سکتا ہے تیرے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے وہ رمز شوق کہ پوشیدہ لا الٰہ میں ہے طریق شیخ فقیہانہ ہو تو کیا کہیے سُرور جو حق و باطل کی کارزار میں ہے تُو حرب و ضرب سے بیگانہ ہو تو کیا کہیے جہاں میں بندۂ حُر کے مشاہدات ہیں کیا تِری نگاہ غلامانہ ہو تو کیا کہیے مقامِ فقر ہے کتنا بلند شاہی سے روِش کسی کی گدایانہ ہو تو کیا کہیے! سورۃ اخلاص میں اللہ تعالیٰ نے دوسرے انداز میں بیان کیا ہے: ﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ () اللَّهُ الصَّمَدُ () لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ () وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ ()﴾ [1] ’’ (اے پیغمبر ) کہہ دیجئے کہ وہ اللہ ایک ہے اللہ بے نیاز ہے نہ اس نے کسی کو جنا ہے اورنہ وہ کسی سے جنا گیا ہے اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔‘‘ "الاخلاص سے پہلے سورت اللّہب ہے جس میں توحید کے مخالفین میں سے ایک بڑے مخالف کی ہلاکت و بربادی کی اطلاع دی گئی ہے۔ اس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ بالآخر دعوت توحید کے مخالف مٹ جائیں گے اور توحید خالص کا پرچار اور غلغلہ ہوگا۔"[2] "یاد رہے کہ ہر دور کے مشرک اپنے اپنے انداز اور نظریات کے مطابق ’’اللہ‘‘ کی توحید کو ماننے اور اس کی عبادت کرنے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں لیکن شرک میں ملوث لوگ توحید خالص کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے، حالانکہ قرآن مجید اور انبیائے کرام علیھم السلام کی دعوت توحید خالص ہے جسے اس سورت میں جامع الفاظ اور کھلے انداز میں بیان کیا گیا ہے، جو شخص ذاتی اور گروہی تعصبات سے بالاتر ہو کر توحید خالص کو سمجھنے کی کوشش کرے گا وہ اس سے واضح، مختصر اور موثر انداز کہیں نہیں پائے گا۔ اس سورت میں توحید خالص بیان
[1] تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف [2] تفہیم القرآن از مولانا سید ابو الاعلی مودودی