کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 35
ہیں عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں ، بزرگوں کی حیثیت بادشاہ کے معاوِنوں کی ہے وغیرہ)اللہ ان سے بإک ہے۔) "(اگربالفرض اللہ کے ساتھ کوئی اور الہٰ ہوتا تو ہر الٰہ اپنی بنائی ہوئی چیزوں کو لے کر چل دیتا اور ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش کرتا (جیسے بادشاہوں کی عادت ہے ۔ ۔ ۔)کیونکہ ہر خدا اپنی جگہ قادر خودمختار ہوتا تو ان میں ہمیشہ کشمکش کا بازار گرم رہتا ہے جیسے فرمایا :﴿ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ﴾ (مومنون :91) اور کوئی چیز اپنی مترتب شکل میں بن سکتی نہ چل سکتی۔ توحید پر یہ دلیل سادہ بھی ہے اور ناقابل تردید بھی متکلمین نے اس کا نام برہانِ تمانُع رکھا ہے مگر اس کی سادہ تشریح بھی ہو سکتی ہے۔ (کبیر) [1] سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے ان کے غلط دعووں کی تردید اس طرح کی ہے: ﴿قُلْ لَوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لَابْتَغَوْا إِلَى ذِي الْعَرْشِ سَبِيلًا﴾ [2] (اے پیغمبر! کہہ دو اگر اللہ تعالیٰ کےساتھ اور معبود ہوتے جس طرح یہ لوگ کہتے ہیں تب تو یہ عرش کے مالک تک(پہنچنے کا) ضرور کوئی راستہ ڈھونڈ نکالتے وہ ان کی (نا زیبا) باتوں سے پاک اور برتر ہے) "اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ جس طرح ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ پر لشکر کشی کر کے غلبہ و قوت حاصل کرلیتا ہے، اسی طرح دوسرے معبود بھی اللہ پر غلبے کی کوئی راہ ڈھونڈ نکالتے۔ اور اب تک ایسا نہیں ہوا، جب کہ ان معبودوں کو پوجتے ہوئے صدیاں گزر گئی ہیں ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود ہی نہیں ، کوئی با اختیار ہی نہیں ، دوسرے معنی ہیں کہ وہ اب تک اللہ کا قرب حاصل کرچکے ہوتے اور یہ مشرکین جو یہ
[1] تفسیر معارف القرآن از مفتی محمد شفیع [2] تفہیم القرآن از مولانا سید ابو الاعلی مودودی [3] سورۃ المومنون:91