کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 349
راہ حق و ہدایت سے قریب کرنے۔ اور اس کو اپنانے کے بجائے۔ الٹا اسکے لئے بعد اور دوری کا باعث بن جاتا ہے اور وہ مادیت اور مادہ پرستی ہی میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ الا ماشاء اللہ" [1] فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں ڈور سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں "ابراہیم نے خدا اور مذہب کے معاملہ میں اپنے آباء و اجداد کی اندھی تقلید نہیں کہ بلکہ سوجھ بوجھ سے کام لیا اور نظام کائنات کے مشاہدہ سے صحیح نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو بصیرت سے نوازا اور ان کی رہنمائی کی۔ قرآن میں دوسری جگہ فرمایا گیا ہے۔ ﴿ وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ﴾[2] اور ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سوجھ بوجھ عطاء کی تھی کی تھی۔ نبی فطرتِ سلیمہ پر قائم ہوتا ہے اس لئے ابراہیم علیہ السلام بھی اس پر قائم تھے۔ وہ اللہ ہی کو اپنا رب مانتے تھے اور اس بارے میں وہ کسی شک و شبہ میں مبتلا نہیں تھے لیکن ملکوتِ الٰہی کے مشاہدہ نے ان کے تصور توحید کو اور پختہ کردیا اور ان کے اندر یقین کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ قرآن اسی مشاہدہ کی دعوت دیتا ہے جو شخص بھی نظامِ کائنات پر اس پہلو سے غور کرے گا کہ اس کا کوئی خالق ہے یا نہیں اور اس پر ایک خدا کی فرمانروائی ہے یا بہت سے خداؤں کی اس پر توحید کی حقیقت منکشف ہوجائے گی۔ موجودہ زمانہ کے سائنس داں اور ماہرین فلکیات (Astronomers) چونکہ اس پہلو سے کائنات کا مشاہدہ نہیں کرتے اور ان کا مطالعہ معروضی (Objective) نوعیت کا نہیں ہوتا بلکہ وہ خدا سے بے پروا ہو کر یا متعصبانہ ذہنیت کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں اس لئے وہ
[1] سورۃ الانعام:75