کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 346
کیا کہتے ہیں ‘ انہوں نے جواب دیا کیا تم سے ایسا کام ہوسکتا ہے جس کام میں لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاکو بدنام کرتے ہیں ان کی بی بی نے کہا ہرگز نہیں ۔ حضرت ایوب رضی اللہ عنہ نے کہا پھر اللہ کے رسول کی بی بی سے ایسا کام کیونکر ہوسکتا ہے‘ جو کچھ چرچا لوگ کر رہے ہیں وہ بالکل بہتان ہے‘صحیحین[1] میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں سات بڑے سخت گناہوں کا جو ذکر آیا ہے‘ اس طرح کا بہتان بھی ان گناہوں میں سے ہے‘ اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگ اس طرح کی باتوں کو معمولی باتیں خیال کرتے ہیں اور اللہ کے نزدیک یہ بڑا سخت گناہ ہے‘. . .صحیح مسلم‘ ترمذی وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت [2]؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز صحابہ رضی اللہ عنھم سے فرمایا‘ تم کو معلوم ہے کہ مفلس کس شخص کو کہتے ہیں ‘ صحابہ رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کہ جس شخص کے پاس کچھ مال متاع نہ ہو‘ ہم لوگ تو اس کو مفلس کہتے ہیں ‘ آپ نے فرمایا اصل مفلس میری امت میں وہ شخص ہے کہ جو نیک عمل کر کے پھر قیامت کے دن اس سبب سے خالی ہاتھ رہ جاوے گا کہ لوگوں میں غیبت کا کرنا لوگوں پر بہتان باندھنا اس کی عادت ہوگی اور اس عادت کی سزا میں قیامت کے دن اس کی سب نیکیاں چھین کر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دے گا جن لوگوں کی اس نے برائی کی تھی‘ حاصل کلام یہ ہے کہ بہتان‘ غیبت‘ چغل خوری یہ اس طرح کے گناہ ہیں کہ اکثر لوگ ان کو ایک زبانی بات چیت اور محفل کا ایک مشغلہ گنتے ہیں اور شریعت میں یہ باتیں بڑے گناہ کی چیزیں ہیں ایسی باتوں کے باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیحین کی روایت ٤؎ گزر چکی ہے کہ بعض باتوں کو انسان خفیف جان کر دنیا میں منہ سے کہہ دیتا ہے‘ عاقبت میں جن کی سزا کے سبب سے ایک مدت دراز تک اس کو دوزخ میں رہنا پڑے گا۔ یہ تو عاقبت کے وبال کا ذکر ہوا‘ علاوہ اس کے ایسے شخص پر جو بہتان‘ چغل خوری‘ غیبت میں لگا رہے‘ دنیا میں بھی وبال پڑتا ہے‘ مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ١؎ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی کسی کی غیبت اور ایذا میں لگے گا وہ خود بھی دنیا میں فضیحت ہوگا‘ معتبر سند سے اوسط اور صغیر طبرانی میں بھی ثوبان رضی اللہ عنہ سے اس کے قریب قریب روایت ہے جس سے اس سند کی روایت کو تقویت ہوجاتی علاوہ اس کے صحیح سند سے ترمذی [3] ؎ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ابوداو‘ د میں ابوبرزہ سے‘ ابن ماجہ ٣؎ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے معتبر روایتیں اس مضمون کی ہیں جس سے سند کے راوی ابو محمد میمون تمیمی کا ضعف جاتا رہتا ہے‘ یہی حال دوسرے راوی میمون بن موسیٰ مراغی کے ضعف کا ہے‘ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے
[1] حافظ محمد سید احمدحسن: احسن التفاسیر