کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 345
کا بڑا بوجھ اپنے سر پر جس شخص نے لیا وہ عبد اللہ بن ابی منافقوں کا سردار تھا کیونکہ اس نے اس بہتان کے قصہ کو زیادہ شہرت دی اسی واسطے حسان رضی اللہ عنہ ‘ مسطح رضی اللہ عنہ وغیرہ کو دنیا میں کوڑے مارنے کی سزا دی گئی اور عبد اللہ بن ابی کی سزا کا مدار عقبیٰ پر رہا‘ آگے فرمایا جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور دوسروں کو اپنے جیسا مسلمان جانتے ہیں تو منافقوں سے اس بہتان کا چرچا سن کر اپنے بھائی مسلمانوں کے حق میں نیک گمان کیوں نہیں کیا اور بغیر چار گواہوں کی گواہی کے اس چرچے کو جھوٹا کیوں نہیں جانا‘ اگر مسلمانوں کے حال پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو فقط کوڑوں کی سزا کافی نہ ٹھہرتی بلکہ اس جرم کی سزا میں ان لوگوں پر کوئی عذاب آجاتا جنہوں نے اس پہتان کو جس طرح کسی سے سنا اسی طرح آپ بھی بکنے لگے اور ایسی بات کو چھوٹی سی ایک بات سمجھے جو اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے‘ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نادانی سے بعضے کلمے ایسے انسان کی زبان سے نکل جاتے ہیں جن کے سبب سے ایک مدت دراز تک اس کو دوزخ میں رہنا پڑے گا‘ آخری آیت کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔" [1]
" جس بہتاں کا ذکر اوپر گزرا‘ اس بہتان میں دو طرح کے آدمی تھے‘ کچھ تو عبداللہ بن ابی کے ساتھ منافق لوگ تھے جو حقیقت میں دل سے مسلمانوں کے بدخواہ تھے‘ ان کے حق میں اللہ تعالیٰ نے اوپر کی آیتوں میں یہ فرمایا‘ ان کو عاقبت میں سخت عذاب ہوگا اور کچھ مسلمان لوگ منافقوں سے سن سنا کر دل میں اس بہتان کی بات کو سچا گمان کرنے لگے تھے یا بعض لوگ زبان سے بھی اس بہتان کی بات کا چرچا کرنے لگے تھے‘ ان دونوں قسموں کے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت فرمائی کہ اوپر کے حکم کے موافق جب شریعت میں چار گواہوں کی گواہی کے بغیر یہ بہتان ثابت نہیں ہوسکتا تو پھر جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں انہوں نے اس بہتان کو اپنے دل میں کیوں کر سچا گمان کیا اور زبان پر کیوں اس کا چرچا لائے۔ اس میں ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ابی رضی اللہ عنہ بن کعب اور ان صحابہ کی تعریف نکلتی ہے جنہوں نے بغیر شہادت کے اس بہتان کو سنتے ہی جھوٹ جانا۔ ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی بی بی نے ان سے ایک روز کہا۔ اجی تم نے کچھ سنا حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاکے باب میں لوگ کیا