کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 343
عورتوں نے اپنے حق میں نیک کمائی کیوں نہ کی کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا صریح بہتان ہے (١)وہ اس پر چار گواہ کیوں نہ لائے؟ اور جب گواہ نہیں لائے تو بہتان باز لوگ یقیناً اللہ کے نزدیک محض جھوٹے ہیں ۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر دنیا اور آخرت میں نہ ہوتا تو یقیناً تم نے جس بات کے چرچے شروع کر رکھے تھے اس بارے میں تمہیں بہت بڑا عذاب پہنچتا۔ جبکہ تم اسے اپنی زبانوں سے نقل در نقل کرنے لگے اور اپنے منہ سے وہ بات نکالنے لگے جس کی تمہیں مطلق خبر نہ تھی، گو تم اسے ہلکی بات سمجھتے رہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک بہت بڑی بات تھی۔ تم نے ایسی بات کو سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات منہ سے نکالنی بھی لائق نہیں ۔ یا اللہ! تو پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے اور تہمت ہے (١)اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر کبھی بھی ایسا کام نہ کرنا اگر تم سچے مومن ہو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے اپنی آیتیں بیان فرما رہا ہے، اور اللہ تعالیٰ علم و حکمت والا ہے۔ جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں (١) اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ بڑی شفقت رکھنے والا مہربان ہے (١) (تم پر عذاب اتر جاتا)
"حضرت عائشہ (رضی اللہ عنھا) پر جو لوگوں نے جھوٹا الزام لگایا تھا‘ ان آیتوں میں اس کا ذکر ہے‘ صحیح بخاری ومسلم میں سات آٹھ صحابیوں کی روایت سے یہ قصہ آیا ہے‘ حاصل اس قصے کا یہ ہے کہ ٦ ھ میں بنی مصطلق کی لڑائی سے واپسی کے وقت لشکر کے کوچ سے ذرا پہلے حضرت عائشہ (رضی اللہ عنھا) رفع حاجت کے لیے لشکر کے پڑاؤ سے علیحدہ جنگل میں چلی گئیں ‘ وہاں اتفاق سے ان کے گلے کا پوتھوں کا ہار گر پڑا یہ تو اس ہار کے ڈھونڈنے میں رہیں اور یہاں لشکر کا کوچ ہوگیا‘ کوچ کے وقت اونٹ والوں نے یہ سمجھا کہ معمول کے موافق حضرت عائشہ
[1] سورۃالنور:11تا20