کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 33
جو ہے وہی ہے‘ حکومت دنیا کا سا حال اس کا نہیں کہ خلجیوں کا انتظام کچھ اور تھا اور تیموریوں کا کچھ اور اب کچھ اور ہی ہے‘ اس سبب سے آنکھوں دیکھی باتوں سے یہ بات نکلی‘ کہ آسمانی حکومت ایک ذات پاک کی قدرت اور اختیار میں ہے کہ جس کا نہ کوئی شریک ہے نہ مقابل‘ اسی کا نام توحید ہے ۔ ۔ ۔ جب ان لوگوں کے تجربہ عقلی کے موافق اللہ کی وحدانیت اور اس کے ہاتھ میں تمام عالم کے انتظام کا ہونا ثابت ہوگیا تو یہ مشرک لوگ اللہ کی شان میں جو باتیں بناتے ہیں ان سے وہ پاک ذات بالکل پاک ہے اور اس کے کسی طرح کے انتظام میں جب کوئی شریک نہیں ہے تو اس کی تعظیم میں دوسروں کو شریک ٹھہرانا بڑے وبال کی بات ہے۔" [1]
" ﴿لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ ﴾ یہ توحید کی دلیل عادی ہے جو عام عادات کے اعتبار پر مبنی ہے اور دلیل عقلی کی طرف بھی اشارہ ہے جس کی مختلف تقریریں علم کلام کی کتابوں میں مذکور ہیں اور دلیل عادی اس بنا پر ہے کہ اگر زمین و آسمان کے دو خدا اور دونوں مالک و مختار ہوں تو ظاہر یہ ہے کہ دونوں کے احکام پورے پورے زمین و آسمان میں نافذ ہونے چاہئیں اور عادةً یہ ممکن نہیں کہ جو حکم ایک دے وہی دوسرا بھی دے یا جس چیز کو ایک پسند کرے دوسرا بھی اس کو پسند کرے اس لئے کبھی کبھی اختلاف رائے اور اختلاف احکام ہونا ناگزیر ہے اور جب دو خداؤں کے احکام زمین و آسمان میں مختلف ہوئے تو نتیجہ ان دونوں کے فساد کے سوا کیا ہے۔ ایک خدا چاہتا ہے کہ اس وقت دن ہو، دوسرا چاہتا ہے رات ہو، ایک چاہتا ہے بارش ہو دوسرا چاہتا ہے نہ ہو، تو دونوں کے متضاد احکام کس طرح جاری ہوں گے اور اگر ایک مغلوب ہوگیا تو مالک مختار اور خدا نہ رہا۔ اس پر یہ شبہ کہ دونوں آپس میں مشورہ کر کے احکام جاری کیا کریں اس میں کیا بعد ہے اس کے جوابات علم کلام کی کتابوں میں بڑی تفصیل سے آئے ہیں ۔ اتنی بات یہاں بھی سمجھ لی جائے کہ اگر دونوں مشورہ کے پابند ہوئے ایک
[1] سورۃ الانبیاء:22