کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 274
تمہیں ایسے حالات سے گزارنا اس لیے ضروری تھا کہ مومنوں اور منافقوں کا امتیاز کھل کر سامنے آجائے۔ عنقریب اسلام کو غلبہ حاصل ہونے والا ہے۔ اور تمہاری امت کو تمام دنیا کی قیادت کے لیے منتخب کیا جارہا ہے۔ لہذا منافقوں کو چھانٹ کر الگ کردینا ضروری تھا کہ وہ بھی اپنے آپ کو اس قیادت کے حقدار اور حصہ دار نہ سمجھ بیٹھیں اور ان کی صحیح قدر و قیمت انہیں خود بھی اور دوسروں کو بھی معلوم ہوجائے۔" [1] آج کے خطبہ کا ہمارا موضوع ہے کہ وہ کون کون سے وسائل ہیں جو اطمینان قلب کا سبب بن سکتے ہیں ۔ ان میں سے ایک سبب ہے: تقدیر پر ایمان "حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صادق مصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ تم میں ہر ایک ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفے کی حالت میں رہتا ہے پھر چالیس دن کے بعد گاڑھا خون بن جاتا ہے پھر چالیس دن میں گوشت کا لوتھڑا بنتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے اور اسے چار چیزیں لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے پس اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں تم میں سے کوئی اہل جنت کے عمل کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان بالشت بھر فاصلہ رہ جاتا ہے پھر تقدیر الٰہی اس کی طرف سبقت کرتی ہے تو اس کا خاتمہ دوزخیوں کے اعمال پر ہوتا ہے اور وہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے اور ایک آدمی جہنمیوں کے اعمال کرتا ہے یہاں تک تقدیر الٰہی اس کی طرف دوڑتی ہے اور اس کا خاتمہ جنتیوں کے اعمال پر ہوتا ہے پس وہ جنت میں داخل ہوجاتا ہے یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ " [2] چاک کو تقدیر کے ممکن نہیں کرنا رفو سوزن تدبیر گر ساری عمر سیتی رہے "حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر پڑھا کرتے تھے (يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَی دِينِکَ) اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم ایمان لائے آپ پر اور جو چیز آپ
[1] سورۃ الحدید: 22، 23