کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 26
تاخیر سے آنے کی وجہ دریافت کی۔ اس بزرگ نے کہا کہ وہاں ساحل پر کوئی کشتی نہ تھی لیکن میری آنکھوں کے سامنے خود بخود درخت ٹوٹا اس کے تختے بنے پھروہ خود بخود کشتی کی شکل اختیار کر گئے اور پھر وہ کشتی خود چلنے لگی اور میں یہاں پہنچ گیا۔ دہریوں نے کہا ایسا ناممکن ہے کہ خود بخود درخت ٹوٹے ،اس کے تختے بنیں پھروہ خود بخود کشتی کی شکل اختیار کر لے اور پھر وہ کشتی خود چلنے لگے اور آپ یہاں پہنچ جائیں ۔ اس پر اس بزرگ نے فرمایا اگر ایک چھوٹی سی کشتی خود بخودنہیں بن سکتی تو اتنا بڑا نظام کائنات خودبخود کیسے بن سکتاہے اور پھر منظم صورت میں کیسے چل سکتاہے ؟ بقول عربی شاعر: فَيَا عَجَبًا كَيْفَ يُعْصَى الْإِلَـهُ أَمْ كَيْفَ يَجْحَدُهُ َاحِدُ؟ وَلِلَّهِ فِي كُلِّ تَحْرِيكَةٍ وَتَسْكِينَةٍ أَبَدًا شَاهِدُ فِي كُلِّ شَيْءٍ لَهُ آيَةٌ تَدُلُّ عَلَى أَنَّهُ وَاحِدُ یہ کہا گیا ہے کہ یہ ابو العتاہیہ کے اشعار ہیں ۔ [1] (کس قدر تعجب کی بات ہے! معبود برحق کی نافرمانی کوئی کیسے کرتاہے یا انکار کرنے والا اس کا انکار کیسے کرتاہے ؟حالانکہ ہر حرکت اور سکون میں ایک ابدی شاہد ہے جو قدرت الہیہ پر شاہد ہے اور ہر چیز میں (اس کی ذات و قدرت کی) نشانی موجود ہے جو دلالت کرتی ہے کہ وہ ایک ہی(قادر مطلق) ذات ہے۔) مظاہر فطرت میں عقل مند لوگوں کے لئے (اللہ تعالی کے وجود اور قدرت کی) نشانیاں ہیں ۔ ﴿يٰاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ [2] (لوگو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو)
[1] سورۃ الانبیاء:22