کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 228
وہ مالدار لوگ جو غریب لوگوں کی پگڑیاں اچھال دیتے ہیں اور ان پر طعن و تشنیع کرنے سے ذرا بھی نہیں تامل اور ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑے مجرم ہیں ۔ چنانچہ ایسے کوگوں کی بابت اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ (1) الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ (2) يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ (3) كَلَّا لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ (4) وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْحُطَمَةُ (5) نَارُ اللَّهِ الْمُوقَدَةُ (6) الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ (7) إِنَّهَا عَلَيْهِمْ مُؤْصَدَةٌ (8) فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ ﴾ [1] (بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے والا غیبت کرنے والا ہو۔ جو مال کو جمع کرتا جائے اور گنتا جائے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس سدا رہے گا۔ ہرگز یہ تو ضرور توڑ پھوڑ دینے والی آگ میں پھینک دیا جائے گا .اور تجھے کیا معلوم کہ ایسی آگ کیا ہوگی؟ وہ اللہ تعالیٰ کی سلگائی ہوئی آگ ہوگی۔ جو دلوں پر چڑھتے چلی جائے گی۔ اور ان پر بڑے بڑے ستونوں میں ۔ ہر طرف سے بند ہوئی ہوگی۔ ) ’’یہاں ان لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو دنیا میں دوسروں کو طعنہ زنی، عیب جوئی سے تنگ کرتے ہیں ۔ یعنی دوسروں کی عزت خراب کرتے ہیں اور مال سے محبت اس قدر رکھتے ہیں کہ جہاں ضرورت ہو وہاں بھی خرچ نہیں کرتے انتہائی بخیل اور تنگ نظر لوگ ہوتے ہیں ۔ یعنی ہر وقت اسی چکر میں رہتے ہیں کہ کیسے مال بڑھتا رہے کم نہ ہو۔ ۔ ۔ ۔ لوگ مذاق مذاق میں دوسروں سے طعنہ زنی کرتے رہتے ہیں ۔ تو ان کو خبردار کیا گیا ہے کہ اس طرح دوسروں کی عزت خراب کرنا اور دل دکھانا اللہ کو بہت زیادہ ناپسند ہے۔ ‘‘[2] دنیا کا مال متاع غرور ہے
[1] محمد بن إسماعيل ،أبو عبداللّٰه البخاری الجعفی : صحيح البخاری (الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وسننه وأيامه)، جلد1،صفحہ 11،المحقق: محمد زهير بن ناصر الناصر،دار طوق النجاة (مصورة عن السلطانية بإضافة ترقيم ،ترقيم محمد فؤاد عبد الباقی)،الطبعة: الأولى، 1422هـ ،عدد الأجزاء: 9۔ المصدر السابق،جلد8،صفحہ 102۔ مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيری النيسابوری (المتوفى: 261هـ):صحیح مسلم(المسند الصحيح المختصر بنقل العدل عن العدل إلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم)،جلد1،صفحہ 65، المحقق: محمد فؤاد عبد الباقی ،دار إحياء التراث العربی – بيروت،عدد الأجزاء: 5 ۔