کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 224
دنیوی زیب و زینت ، چہل پہل اور ٹیپ ٹاپ کی حیثیت اخروی حیات ابدی کے مقابلے میں اس آب قلیل جو دریا یا سمندر میں انگشت ڈبو کر اس کے ساتھ آ جائے سے زیادہ نہیں ہے بھلا اس مائ قلیل کا آب دریا یا آب سمندر سے کیا مقابلہ ۔ یہی حال دینوی زندگی کا اخروی زندگی کے مقابلے میں ہے ۔ چنانچہ پیارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
" وَاللّٰهِ مَا الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مِثْلُ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ هَذِهِ فِي الْيَمِّ، فَلْيَنْظُرْ بِمَ تَرْجِعُ " يَعْنِي الَّتِي تَلِي الْإِبْهَامَ "[1]
(اللہ کی قسم !آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسے ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگشت کو دریا ڈبوتا ہے پھر دیکھے کہ کس چیز کے ساتھ وہ انگشت واپس لوٹتی ہے ۔ ۔ ۔)
جس دنیا کی آخرت کے مقابلے میں اتنی سی حیثیت ہے اس کے لیے ہمارا حال بقول شاعر:
دین کو چھوڑ کر نہ جانے کیوں مول لیتے ہیں نت نئے آزار
جھاگ ہی کو سمجھ رہے ہیں دودھ کیوں یہ دین نا شناس دنیا دار
"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَنْکِبِي فَقَالَ کُنْ فِي الدُّنْيَا کَأَنَّکَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ إِذَا أَمْسَيْتَ فَلَا تَنْتَظِرْ الصَّبَاحَ وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تَنْتَظِرْ الْمَسَائَ وَخُذْ مِنْ صِحَّتِکَ لِمَرَضِکَ وَمِنْ حَيَاتِکَ لِمَوْتِکَ"[2]
(عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے میرا مونڈھا پکڑ کر فرمایا کہ تم دنیا میں اس طرح رہو گویا تم مسافر ہو یا راستہ طے کرنے والے ہو اور ابن عمر کہتے ہیں کہ جب شام ہوجائے تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب صبح ہوجائے تو شام کا انتظار
[1] تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الزکاة ٣٨ (١٠٤٧)، سنن الترمذی/الزھد ٢٨ (٢٣٣٩)، (تحفة لأشراف: ١٤٣٤)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الرقاق ٥ (٦٤٢١)، مسند احمد (٣/١١٥، ١١٩، ١٦٩، ١٩٢، ٢٥٦، ٢٧٦) (صحیح)
[2] ابن ماجہ، أبو عبد اللّٰه محمد بن يزيد القزوينی (المتوفى: 273هـ):سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 985 ۔