کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 220
(بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے کچھ عاقل بندے ایسے ہیں جو دنیا سے کنارہ کشی کرتے ہیں تاکہ اس کے فتنوں سے محفوظ رہ سکیں ۔ اس میں غورو خوض کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ انسان کا مستقل وطن نہیں ہے وہ اس دنیا کو بھنور اور گرداب سمجھتے ہیں اور نیک اعمال کو سفینہ تصور کرتے ہیں ۔ عاقل و ذی شعور لوگ فتن دنیا سے گریز پا ہو کر حیات مستعار اس انداز سے گزارتے ہیں وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں کہ دنیا بے حقیقت اور فانی ہے لہذا وہ اس کے متمنی اور خواہاں نہیں ہوتے۔ ) [1] نے گل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہے اعتبار کس بات پر چمن ہوس رنگ و بو کریں اس فانی میں ہر چیز فانی ہے لہذا: کیا واسطہ ہمیں ان گلوں سے اے صبا دو گھڑی ادھر آئے اور پھر ادھر چلے بقول بہادر شاہ ظفر: لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں کِس کی بنی ہے عالم نا پائیدار میں عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں بلبل کو باغباں سے نا صیاد سے گلہ قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں ان حسرتوں سےکہہ دو کہیں اور جا بسیں اتنی جگہ کہاں ہے دل دغدار میں
[1] البخاری ،محمد بن إسماعيل ، أبو عبد اللّٰه الجعفی (المتوفى: 256هـ):صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2368 ۔ [2] البخاری ،محمد بن إسماعيل ، أبو عبد اللّٰه الجعفی (المتوفى: 256هـ):صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2124 ۔