کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 22
بلاشبہ تزکیہ ہی وہ جوہر ہے جس سے تہذیب و تمدن کا رخ صحیح رہتا ہے اور معاشرہ سنگین قسم کے جرائم سے پاک رہتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
﴿قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى﴾ [1]
(جس نے تزکیہ کر لیا وہ کامیاب ہو گیا)
اور فرمایا:
﴿وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا () فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا () قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا () وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا ()﴾[2]
(قسم ہے نفس کی اور جو اس کو برابر کیا۔ اسے اس کے گناہ اور تقوی کا الہام کر دیا۔ وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے اس کو پاک کر لیا۔ اور وہ ناکام ہو گیا جس نے اسے گدلا کر دیا۔)
تزکیہ نفس کتاب و سنت کی تعلیم کی بغیر ممکن نہیں ۔ ہر شخص جو اپنے وضع کردہ اصولوں کی روشنی میں تزکیہ نفس کا داعیہ لے کر اٹھتا ہے تو وہ اس میں ناکام رہتا ہے اور مطلوب و مقصود سے محروم رہتا ہے اللہ کریم فرماتے ہیں :
﴿فَلَا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى ﴾ [3]
(تم اپنے آپ کو پاک نہ گردانو وہی اچھی طرح جانتا ہے جو متقی ہے۔)
کچھ صوفیہ حضرات نے کتاب و سنت سے ہٹ کر تزکیہ نفس کے کچھ اصول اور ضوابط اپنائےجس کی وجہ سے وہ نہ صرف کتاب و سنت کی تعلیم سے محروم ہوئے بلکہ وہ صراط مستقیم سے بھی ہٹ گئے جس کا نتیجہ شدید گمراہی اور عقائد میں سخت خرابی کی صورت میں نکلا۔ جس سے عبادت کا بھی مفہوم بدل گیا اور انہوں نے چلہ کشی کی راہ اپنا کر اپنے نفوس پر بھی نا حق تشدد کیا اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم روز روشن کی طرح عیاں ہوا کہ '' لَا تُشَدِّدُوْا عَلَی اَنْفُسِکُمْ فَیُشَدِّدُ اللّٰهُ عَلَیْکُمْ'' (تم اپنے آپ پر تشدد نہ کرو اللہ تعالی بھی تم پر تشدد کرے گا) ''اِنَّ
[1] سورۃ الجمعہ:2