کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 218
پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے : " الدُّنْيَا دَارُ مَنْ لَا دَارَ لَهُ، وَمَالُ مَنْ لَا مَالَ لَهُ، (2) وَلَهَا يَجْمَعُ مَنْ لَا عَقْلَ لَهُ " [1] (دنیا اس کا گھر ہے جس کا کوئی اور گھر نہیں اور اس کا مال ہے جس کا کوئی اور مال نہیں اوراسے وہ جمع کرتا ہے جس کے پاس عقل نہیں ہے) "رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح کو جزیہ لانے کے لئے بحرین روانہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین کے باشندوں سے صلح کرکے ان پر علاء بن حضرمی کو حاکم اعلیٰ مقرر فرما دیا تھا انصار نے جب سن لیا کہ ابوعبیدہ بحرین سے مال لے کر لوٹ آئے ہیں تو انہوں نے ایک دن نماز فجر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر پڑھ کے واپس ہونے لگے تو انصاری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے جمع ہوگئے یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ تم نے سنا ہے کہ ابوعبیدہ کچھ مال لائے ہیں ان لوگوں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسرور ہوجاؤ اور اس امر کی امید رکھو جو تم کو فرحان و شاداں کردے گی اللہ کی قسم! مجھے تمہاری ناداری کا اندیشہ نہیں البتہ اس امر کا ڈر لگا ہوا ہے کہ تمہارے لئے دنیا ایسی ہی وسیع کردی جائے گی جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ و فراخ کردی گئی تھی اور اس وقت تم جھگڑے کروگے جیسے کہ پچھلی قوموں نے جھگڑے مچائے تھے اور یہ فراخی و کشادگی تم کو ہلاکت میں ڈال دے گی جس طرح گزشتہ لوگوں کو اس نے ہلاک کردیا ہے۔"[2] پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہائش گاہ " ۔ ۔ ۔(حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے کہ) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خالی بوریے پر لیٹے ہوئے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اور بوریے کے درمیان کوئی بستر نہ تھا اور بوریے کے نشان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر پڑگئے تھے اور چمڑے کے ایک تکیہ سے
[1] إسماعيل بن محمد العجلونی الجراحی (المتوفى: 1162هـ): كشف الخفاء ومزيل الإلباس عما اشتهر من الأحاديث على ألسنة الناس،جلد1،سفحہ، مكتبة القدسي، لصاحبها حسام الدين القدسی – القاهرة ،عام النشر: 1351 هـ۔ قال الصغاني موضوع، أقول وإن كان معناه صحيحا لكنه ليس بحديث، وقال النجم ليس بهذا اللفظ في المرفوع، وعند أبي نعيم عن يوسف ابن أسباط قال قال علي بن أبي طالب الدنيا جيفة، فمن أرادها فليصبر على مخالطة الكلاب، وأخرجه ابن أبي شيبة عنه مرفوعا ورواه البزار عن أنس بلفظ ينادي مناد دعوا الدنيا لأهلها ثلاثا، من أخذ من الدنيا فوق ما يكفيه أخذ حتفه وهو لا يشعر، وذكره السيوطي في الدرر بلفظ الدنيا جيفة، والناس كلابها رواه أبو الشيخ في تفسيره عن علي موقوفا، ثم قال وأخرج الديلمي عن علي مرفوعا أوحى اللّٰه إلى داود: يا داود مثل الدنيا كمثل جيفة جمعت عليها الكلاب يجرونها أفتحب أن تكون مثلهم فتجرها معهم، وقد نظم إمامنا الشافعي رضي اللّٰه عنه ذلك حيث قال وأجاد: ومن يأمن الدنيا فإني طعمتها ... وسيق إلينا عذبها وعذابها فما هي إلا جيفة مستحيلة ... عليها كلاب همهن اجتذابها فإن تجتنبها كنت سلما لأهلها ... وإن تجتذبها نازعتك كلابها