کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 216
"ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی معیت میں بازار سے گزر رہے تھے کہ آپ کی نظر مبارک بھیڑ کے مردہ بچے پر پڑی جس کے کان چھوٹے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے پوچھا کہ تم میں سے کوئی اسے دو درہم کا خریدے گا؟ صحابہ رضی اللہ عنھم نے جواب دیا نہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کہا کہ چلو ایک درہم کا ہی کوئی خرید لے ۔ صحابہ رضی اللہ عنھم نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بھلا اس مردہ بھیڑ کے بچے کو کوئی ایک درہم میں خرید کر کیا کرے گا؟ انہوں نے مزید کہا کہ اسے تو کوئی مفت لینے کے لئے تیار نہیں ۔ صحابہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یاد رکھو اس دنیائے دنی کی حیثیت آخرت کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس بھیڑ کے مردہ بچے سے کم تر ہے۔"(6)
ہماری کوتاہ نظری
"یاللعجب ! آج ہماری فکر ناقص و کوتاہ دھوکا کھا چکی ہے۔ دنیاداروں کے نزدیک حسب نسب کے پیمانے اس مال و دولت کے گرد گھومتے ہیں چنانچہ "حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
اہل دنیا کا حسب نسب " جس کی طرف وہ مائل ہوتے ہیں " یہ مال و دولت ہے۔ " [1]
یاللعجب ! آج ہماری فکر ناقص و کوتاہ اسی دنیائے دنی تک محدود ہو کر رہ گئی ہے جس کی قدر بھیڑ کے بچے سے بھی کم تر ہے اور ہمارا نام اس حقیقت یا حقیقی زندگی کی طرف جو کہ ابدی و دائمی ہے پھرتا ہی نہیں ہے۔
اسی روز و شب سے الجھ کرنہ جا کہ تیرے زمان و مکان اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
دنیا متاع قلیل اور متاع غرور ہے
اس دنیائے نا ثبات کو قرآن مجید نے متاع قلیل اور متاع غرور کہا ہے مگر مذکورہ بالا حقائق کے علم کے باوجود ہم میں سے ہر ایک کا مطمع نظر مقصود اعلی اور اولین غرض و غایت
[1] سورۃ الکہف:45۔