کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 215
کہاں ہیں وہ اہرام مصری کے بانی کہاں ہیں وہ گردان زابلستانی گئے پیشدادی کدھر اور کیانی مٹا کر رہی سب کو یہ دنیائے فانی لگاؤ کہیں کھوج کلدانیوں کا بتاؤ کوئی نشان سا سانیوں کا وائے نادانی وقت مرگ یہ ثابت ہوا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھنا جو سنا افسانہ تھا دنیا کی زندگی کی مثال قرآن مجید نے حیات نا ثبات کی وضاحت ایک عام فہم مثال سے کی ہے کہ آسمان سے بارش کا پانی زمین پر گرتا ہے پانی سے نباتات ،انگوریاں اور بوٹیاں وغیرہ سر سبز و شاداب ہوتی ہیں ان پر رونق و ہریالی دوڑتی ہے وہ بوٹیاں اور انگوریاں دیکھنے والے کے لئے لذت و جاذبیت کا باعث بنتی ہیں دیکھنے والا انہیں لہلہاتے دیکھ کر شاداں ہو تاہے مگر عرصہ قلیل گزرنے کے بعد وہی نباتات اپنی ہریالی ' شادابی اور سر سبزی کھو بیٹھتی ہیں ناظر ان سے محظوط نہیں ہوتا وہ نباتات یابسہئ و بوسیدہ سامان لذت و فرحت فراہم کرنے سے قاصر ہو جاتی ہیں بلکہ ان کی حالت زار و زبون یہ ہوتی ہے کہ ہوا انہیں خشک و یابس تنکوں کی صورت میں ادھر سے ادھراور ادھر سے ادھر اڑائے پھرتی ہے ﴿وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنْزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مُقْتَدِرًا ﴾ [1] اور (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) ان کے لئے حیات دنیا کی مثال بیان کرو کہ وہ پانی کی مانند ہے جسے ہم آسمان سے اتارتے ہیں پھر اس سے زمین کی نباتات اگتی ہیں (مگر تھوڑے عرصے کے بعد) وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں اور ہوائیں ان کو اڑائے پھرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ۔
[1] سورۃ الکہف:35۔