کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 214
اور یہ حیوۃ دنیا تو محض کھیل تماشا ہے جبکہ حقیقی زندگی اخروی ہے کاش لوگ اس حقیقت کو جان لیتے ۔ بقول غالب: با ز یچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے اک کھیل ہے اورنگ سلیمان مرے نزدیک اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے دنیا کی زندگی ایک دھوکہ ہے بعض اہل نظر اور ارباب دانش و بینش حیات فانی کو ایسے خواب و رؤیا سے تعبیر کرتے ہیں جو پر مسرت ہو اپنے دیکھنے والے دل کا اس طرح لبھائے کہ وہ اس کو حقیقی اور دائمی سمجھنے لگے مگر جونہی چند لمحات و لحظات کے بعد نائم نیند سے بیدار ہو تو اس پر عیاں ہو کہ میں تو خواب میں خوش ہو رہا تھا میں تو اسے دائمی تصور کر رہا تھا مگر یہ تو عارضی تھا اس کی تو کوئی حقیقت ہی نہیں ہے بس یہی حال حیات دنیوی کا ہے کہ انسان اس میں اس طرح کھو جاتا ہے کہ اس کو حقیقی و دائمی سمجھنے لگتا ہے اسی کو اپنا مقصود حیات بنا لیتا ہے اور اپنی ساری قوتیں اور صلاحیتیں اس کو حاصل کرنے میں کھپا دیتا ہے جیسا کہ اس باغ کے مالک نے سمجھنا شروع کر دیا جس کا ذکر سورۃ کہف میں ہے چناچہ اس نے اپنے باغ کی بابت کہا: ﴿مَا أَظُنُّ أَنْ تَبِيدَ هَذِهِ أَبَدًا ﴾ [1] پھر اس کا باغ عذاب الہی کی لپیٹ میں آگیااور اللہ تعالیٰ نے اس کے باغ کو نیست ونا بود کر دیا۔ بعض دنیا داروں کی یہی سوچ بنی رہتی ہے یہاں تک کہ موت یا عذاب الہی الہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ پھر موت کے وقت یا عذاب الہی کے وقت اسے پتا چلتا ہے کہ میری اس چار روزہ زندگی کی ماہیت خواب سے بڑھ کر نہیں تھی ۔
[1] صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 67 حدیث متواتر حدیث . [2] البخاری ،محمد بن إسماعيل ، أبو عبد اللّٰه الجعفی (المتوفى: 256هـ):صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 510 [3] العنکبوت:64۔