کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 212
12-حقیقت دنیا (خطبہ مسنونہ صفحہ 21 پر ہے) ﴿وَمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴾[1] (اور یہ حیوۃ دنیا تو محض کھیل تماشا ہے جبکہ حقیقی زندگی اخروی ہے کاش لوگ اس حقیقت کو جان لیتے ۔) جھاگ ہی کو سمجھ رہے ہیں دودھ روز اول اور ابتدائے آفرینش سے لے کر حتی آلان ابن آدم نے تنگ نظری اور محدود خیالی کا ہی مظاہرہ و اظہار کیا ہے اور حقائق کے پیش نظر علی وجہ البصیرت یہی محسوس ہوتا ہے کہ تا منتہائے انسانیت باوجود ترقی و ارتقاء کی منازل طے کرنے کے ابن آدم تنگ نظری اور محدود خیالی کا ہی تاخت و تاراج بنا رہے گا۔ تنگ نظری اور محدود خیالی سے مراد یہ ہے کہ انسان نے ہمیشہ فانی ، عارضی ،ناپائیدار اور دنی دنیا کو لافانی ، ابدی و دائمی نہ ختم ہونے والی حیوۃ اخروی پر ترجیح دی ہے۔ بقول شاعر: دین کو چھوڑکر ناجانے کیوں مول لیتےہیں نت نئے آزار جھاگ ہی کو سمجھ رہے ہیں دودھ کیوں ہی دین ناشناس دنیا دار یہ حیات بے وفا حباب کی سی ہے جبکہ دنیوی حیات بے وفا کی حقیقت (Reality)اپنی عارضیت اور فانیت میں حباب کی سی ہے۔