کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 21
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ تقریظ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ بلاشبہ وہ معاشرہ جو انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات سے عاری ہوتا ہے خواہ اسے کتنا اچھا معاشرہ بھی تصور کیا جائے مگر پھر بھی وہ انسانی اقدار اور اعلی اخلاق سے خالی ہوگا اس لئے کہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیم فطرت کے موافق ہوتی ہے اس میں کوئی غیر فطری عنصر موجود نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ اس تعلیم کی بنیاد توحید ورسالت کے ساتھ کے ساتھ اخلاق کے اعلی اقتدار پر ہوتی ہے جس میں انسانی تہذیب و تمدن کی پوری طرح نشوونما کا سامان اور اسباب موجود ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ وہ اقوام جن میں انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کاعنصر کسی طرح بھی موجود ہے وہ اخلاق و کردار، تہذیب و تمدن کے لحاظ سے ان اقوام سے بدرجہا بہتر ہیں جو انبیاء کی تعلیمات سے کلیۃ عاری ہیں ۔ اسلام نے انسانی اخلاق اور تہذیب و تمدن پر جونقوش ثبت کئے ہیں ممکن ہیں کہ دوسری اقوام کے حصہ میں اس کا عشر وغیرہ بھی نہ آیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اعلی اخلاق کے جتنے اصول اسلام کی تعلیم میں ضم ہیں وہ دوسرے مذاہب اور اقوام میں نہیں ہیں اس لئے اسلام رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد ہی کتاب و سنت کی روشنی میں تزکیہ نفس بناتا ہے۔ اللہ کریم فرماتے ہیں : ﴿هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ﴾ [1] (وہ اللہ جس نے ان پڑھ لوگوں میں سے انہی میں سے رسول مبعوث فرمایا۔ جو ان پر اللہ تعالی آیات پڑھتا ہے اور ان کا تزکیہ (شرک و بدعت سے پاک)کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت(سنت) کی تعلیم اگرچہ وہ اس سے پہلے ظاہر گمراہی میں سے تھے۔)
[1] سنن ترمذی:کتاب النکاح،حدیث1105،صحیح