کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 202
(( اَلْبَیِعَّانِ بِالْخِیَارِ مَالَمْ یَتَفَرَّقَا فَاِنْ صَدَقَا وَ بَیَّنَا بُوْرِکَ لَہُمَا فِیْ بَیْعِہِمَا وَاِنْ کَتَمَاوَ کَذَبَامُحِقَتْ بَرَکَۃُ بَیْعِہِمَا)) [1] (دو بیع کرنے والے افراد کو اس وقت تک اختیار ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں پس اگر وہ سچ بولےں اور( حقیقت حال) بیان کردیں تو ان کی بیع میں برکت ڈال دی جاتی ہے لیکن اس کے برعکس اگر وہ جھوٹ بولیں اور (حقیت حال) چھپائیں تو ان کی بیع کی برکت مٹا دی جاتی ہے) ٭ دھوکہ دہی سے اجتناب کاروبار یا لین دین کے معاملہ میں کسی سے مخادعت(Fraud) کرنا جہاں اخلاقیات کی رو سے انسانیت سوز حرکت اور اخلاق سے انتہائی گرا ہوا فعل شنیع ہے وہاں شریعت کے آئینہ میں لائق صد مذمت حرکت،قابل نفرت کام اور ذلیل و قبیح فعل ہے چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر غلے کے ایک ڈھیر کے پاس سے ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس ڈھیر کے اندر داخل کیا تو آپ کو نمی یا تراوت محسوس ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اے غلے والے! یہ کیا بات ہے ؟ اس نے کہا :"اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس پر بارش برس گئی تھی ۔"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" تو نے اس کو غلے کے اوپڑ کیوں نہ رکھا؟تا کہ لوگ اس کو دیکھ لیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّیْ)) [2] (جو آدمی دھوکہ کرے وہ میری امت سے نہیں ہے۔)