کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 198
چھت پر بیٹھا تھا، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بھی (سورۂ توبہ میں ) کیا ہے۔ کیفیت یہ تھی کہ میں اپنی زندگی سے تنگ آچکا تھا اور زمین باوجود کشادہ ہونے کے مجھ پر تنگ ہوگئی تھی۔ اتنے میں میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی، جو سلع (نامی) پہاڑ پر چڑھ کر بلند آواز سے پکار رہا تھا، کعب! خوش ہوجاؤ۔ یہ سنتے ہی میں سجدہ میں گر پڑا اور مجھے یقین ہوگیا کہ اب میری مصیبت دور ہوگئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز کے بعد لوگوں کو اطلاع دی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا قصور معاف کردیا ہے۔ لوگ خوشخبری دینے کے لیے (جوق در جوق) میرے پاس اور میرے دونوں ساتھیوں کے پاس پہنچنے لگے۔ ایک شخص (سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ گھوڑا دوڑاتے ہوئے میری طرف آئے اور اسلم قبیلے کا ایک شخص دوڑ کر پہاڑ پر چڑھ گیا، بہر حال پہاڑ والے کی آواز مجھ تک گھوڑے والے کی آواز سے پہلے پہنچ گئی۔ جب یہ شخص کہ جس کی بشارت دینے کی آواز مجھے پہنچی تھی، میرے پاس آیا تو میں نے (خوشی میں ) اپنے کپڑے اتار کر اسے پہنا دیے۔ واللہ! اس دن کپڑوں میں سے میرے پاس یہی دو کپڑے تھے اور میں نے (ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے) دو کپڑے مانگ کر پہنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا۔ راستہ میں لوگ جوق در جوق ملتے، توبہ قبول ہونے کی مبارک باد دیتے اور کہتے کہ تمہیں اللہ کی طرف سے معافی مبارک ہو۔
سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور لوگ آپ کے گرد جمع ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ جلدی سے اٹھے، مصافحہ کیا اور مبارک باد دی، اللہ کی قسم! ان کے سوا مہاجرین میں سے اور کسی نے اٹھ کر مجھے مبارک باد نہیں دی اور میں ان کا یہ احسان کبھی نہ بھول پاؤں گا۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک خوشی سے جگمگا رہا تھا۔ آپ نے فرمایا : ’’ کعب تجھے اس دن کی بشارت ہو جو ان سب دنوں سے بہتر ہے جب سے تیری ماں نے تجھے جنا۔‘‘ کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی، اے اللہ کے رسول! یہ خوش