کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 197
کے متعلق کچھ بتاؤ؟ چنانچہ لوگوں نے میری طرف اشارہ کردیا۔ جب وہ میرے پاس آیا تو اس نے مجھے غسان کے بادشاہ کا خط دیا۔ اس میں لکھا تھا، ہم نے سنا ہے کہ تمہارے پیغمبر (محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے بدسلوکی کی ہے۔ اللہ نے تمہیں نہ ذلیل بنایا ہے اور نہ بیکار پیدا کیا ہے، تم ہمارے پاس چلے آؤ۔ ہم تم سے نہایت عزت و احترام سے پیش آئیں گے۔ میں نے خط پڑھ کر خیال کیا کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان ہے۔ میں نے اس خط کو جلتے ہوئے تنور میں پھینک کر جلا ڈالا۔ بہر حال ! اسی حال میں پچاس میں سے چالیس راتیں گزر چکی تھیں کہ ایک آدمی آیا اور اس نے کہا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ تم اپنی بیوی سے الگ رہو۔ میں نے پوچھا، کیا اسے طلاق دے دوں ؟ اس نے کہا، نہیں ! بس اس سے الگ رہو اور وظیفۂ زوجیت ادا نہ کرو۔ میرے دونوں ساتھیوں کو بھی یہی حکم دیا جا چکا تھا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور وہیں رہو، جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم نازل نہ ہوجائے۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور کہنے لگی، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہلال بن امیہ بہت ضعیف ہے اور اس کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں ، اگر میں اس کی خدمت کروں تو آپ برا تو نہیں جانیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ نہیں ! ہاں تعلقات زوجیت قائم نہ کرنا۔‘‘ اس نے کہا، اللہ کی قسم! جس روز سے یہ معاملہ ہوا ہے، انہیں سوائے رونے کے اور کوئی کام ہی نہیں ۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے بھی میرے بعض عزیزوں نے کہا، تم بھی اپنی بیوی کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگ لو تو مناسب ہے۔ میں نے کہا، اللہ کی قسم! میں تو کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی اجازت نہیں مانگوں گا، کیا خبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا جواب دیں ، کیونکہ میں تو جوان آدمی ہوں ۔ اس کے بعد مزید دس راتیں گزر گئیں اور جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بات چیت کرنے کی ممانعت فرمائی تھی، اس کے پچاس دن پورے ہوگئے تھے، تو پچاسویں رات کی صبح جب فجر کی نماز پڑھ کر میں اپنے گھر کی