کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 196
رہے تھے، سو ان کا طرز عمل میرے لیے نمونہ بن گیا اور ان دونوں کے نام سن کر میں گھر کو چلا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے رہ جانے والے ہم تینوں سے لوگوں کو میل جول اور بات چیت سے منع فرما دیا، چنانچہ اب سب ہم سے بچنے لگے، بلکہ بالکل اجنبی سے ہوگئے۔ ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے زمین بدل گئی ہو، وہ زمین ہی نہ رہی ہو (جس پر ہم رہتے تھے)۔ اسی حالت میں پچاس راتیں گزر گئیں ۔ مرارہ اور ہلال (رضی اللہ عنھما) دونوں اپنے اپنے گھروں میں پڑے روتے رہتے اور میں چونکہ ایک جوان اور قوی الاعضا شخص تھا، سو باہر نکلتا اور مسلمانوں کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھتا اور بازاروں میں برابر آتا جاتا، لیکن کوئی مجھ سے بات نہ کرتا اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر بیٹھتے تو میں جا کر سلام کرتا اور غور سے دیکھتا کہ میرے سلام کے جواب میں لب مبارک ہلے ہیں یا نہیں ۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نماز پڑھنے لگتا اور ترچھی نظروں سے آپ کی طرف دیکھتا، تو جب میں نماز میں ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوتے اور (نماز کے بعد) جب میں آپ کی طرف دیکھتاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منہ پھیر لیتے۔ اس طرح ایک مدت گزر گئی۔ پھر جب لوگوں کی اجنبیت زیادہ ہوگئی تو ایک روز میں نکلا اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ کی دیوار پر جا چڑھا۔ وہ میرے چچا زاد تھے اور مجھے بہت زیادہ محبوب بھی تھے، میں نے انہیں سلام کیا تو اللہ کی قسم ! انھوں نے بھی میرے سلام کا جواب نہ دیا۔ میں نے کہا، اے ابو قتادہ ! تجھے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں ، کیا تو نہیں جانتا کہ مجھے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی محبت ہے؟ وہ خاموش رہے، میں نے پھر قسم دے کر دوبارہ یہی کہا، لیکن وہ خاموش رہے۔ پھر تیسری بار قسم دے کر یہی کہا تو ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے جواباً کہا، اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں ۔ یہ جواب سن کر میرے آنسو ٹپک پڑے۔ میں واپس ہوا، دیوار پر چڑھا اور واپس چلا آیا۔
سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب میں بازار میں جا رہا تھا تو اتنے میں ملک شام کا ایک عیسائی کسان جو مدینہ میں گندم فروخت کرنے لایا تھا، کہہ رہا تھا، لوگو ! مجھے کعب بن مالک