کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 195
فرمایا : ’’ یہاں میرے قریب آ جاؤ۔‘‘ میں سامنے جا کر بیٹھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ تم کیوں پیچھے رہ گئے، تم نے تو سواری بھی خرید لی تھی؟‘‘ میں نے عرض کی، کیوں نہیں ، اللہ کی قسم! اس وقت اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دنیا دار شخص کے سامنے بیٹھا ہوتا تو کوئی نہ کوئی عذر گھڑ کر اس کے غصے سے بچ سکتا تھا، کیونکہ میں گفتگو کا دھنی ہوں ، مگر اللہ کی قسم! میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر آج میں جھوٹ بول کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کر لوں تو کل اللہ تعالیٰ (اصل حقیقت کھول کر) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ پر ناراض کر دے گا اور اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچ بات بتا دوں تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچ بولنے کی وجہ سے مجھ سے ناراض ہوں گے، تو بہرحال آئندہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی مجھے امید تو رہے گی۔ نہیں ، اللہ کی قسم! میرے پاس کوئی عذر نہیں ۔ اللہ کی قسم! اس سے قبل میں کبھی اتنا قوی اور فارغ البال نہیں تھا، مگر ( افسوس) یہ سب چیزیں ہوتے ہوئے بھی میں آپ سے پیچھے رہ گیا۔ میری یہ گفتگو سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اس نے بالکل سچ کہا۔‘‘ پھر مجھے حکم دیا : ’’ چلے جاؤ، جب تک تمہارے بارے میں اللہ تعالیٰ کوئی حکم نہ دے۔‘‘ میں اٹھ کر چل پڑا۔ قبیلہ بنو سلمہ کے چند آدمی میرے پیچھے آئے اور مجھ سے کہنے لگے، اللہ کی قسم! ہم نہیں جانتے کہ تو نے اس سے پہلے کوئی بڑا گناہ کیا ہو، ( لہٰذا) کیا تو اس بات سے عاجز آ گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی عذر تراش لیتا، جس طرح دیگر پیچھے رہ جانے والوں نے جھوٹے عذر بیان کیے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا تمہارے گناہ کے لیے کافی ہوتی۔ اللہ کی قسم! وہ برابر مجھے ملامت کرتے رہے، یہاں تک کہ ان کی باتوں سے میرے دل میں خیال آیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں اور اپنی پہلی بات کا انکار کر کے کوئی عذر پیش کروں ۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ کوئی اور بھی ہے جس نے میری طرح گناہ کا اقرار کیا ہو؟ انھوں نے کہا، ہاں دو آدمی ہیں ، جنھوں نے تیری طرح اقرار کیا ہے۔ میں نے پوچھا، وہ دو شخص کون کون سے ہیں ؟ انھوں نے کہا، مرارہ بن ربیع عمری اور ہلال بن امیہ وافقی (رضی اللہ عنھما)۔ انھوں نے ایسے دو آدمیوں کا نام لیا جو بڑے نیک تھے اور بدر کی لڑائی میں شریک