کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 194
کرسکا۔ میرا کئی بار ارادہ ہوا کہ میں بھی کوچ کروں اور ان سے جا ملوں اور کاش! میں ایسا کرلیتا، مگر شاید یہ تقدیر میں نہ تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کوچ کے بعد، مدینہ میں ، جب میں گھر سے نکلتا اور لوگوں سے ملتا تو میں صرف منافقین، معذور اور ضعیف و ناتواں آدمیوں سے ملتا اور مجھے اس سے رنج ہوتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے راستہ میں کہیں یاد نہ کیا، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک پہنچ گئے۔ تبوک میں ایک دن فرمایا : ’’ کعب رضی اللہ عنہ نے یہ کیا کیا (جو وہ آیا نہیں )؟‘‘ بنی سلمہ کے ایک شخص نے کہا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اچھے لباس اور حسن و جمال پر غرور نے اس کو آنے سے روکا۔ یہ سن کر سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہنے لگے، تو نے بہت برا کہا، اللہ کی قسم! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم کعب میں سوائے خیر کے اور کوئی بات نہیں جانتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مجھے یہ خبر ملی کہ آپ واپس آ رہے ہیں تو میرا غم شدید ہوگیا اور میں نے سوچا کہ کوئی ایسا حیلہ کرنا چاہیے جس سے آپ کی ناراضی سے بچ سکوں ۔ اس بارے میں میں نے اپنے اہل خانہ سے بھی مشورہ کیا۔ پھر جب یہ خبر ملی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے قریب آ گئے ہیں تو سارے جھوٹے خیالات میرے دل سے جاتے رہے اور میں نے یقین کرلیا کہ میں جھوٹ بولنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی سے نہیں بچ سکوں گا۔ چنانچہ میں نے سچ بولنے کا فیصلہ کرلیا۔ صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب بھی سفر سے تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں جاتے، دو رکعت نماز پڑھتے اور پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھتے، بہر حال جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس عمل سے فارغ ہوچکے تو اس وقت جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے انھوں نے آنا شروع کردیا، عذر بیان کیے اور قسمیں کھائیں ۔ یہ لوگ تقریباً اسّی (٨٠) سے کچھ زائد تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حیلوں بہانوں کو قبول کرلیا، بیعت لی اور اللہ سے ان کی مغفرت کے لیے دعا کرتے ہوئے ان کے دل کے بھیدوں کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا۔ میں بھی حاضر ہوا۔ السلام علیکم کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں مسکرائے جیسے غصے میں کوئی مسکراتا ہے، پھر