کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 193
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ غزوۂ تبوک سے پیچھے رہنے کا اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں غزوۂ تبوک میں شرکت نہیں کرسکا تھا، حالانکہ اس معرکہ سے پہلے میں کبھی ایسا تندرست و طاقتور اور مال دار نہ تھا۔ میں اس غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گیا اور اللہ کی قسم! اس سے پہلے میرے پاس کبھی دو اونٹنیاں نہ رہی تھیں اور اس غزوہ کے وقت میرے پاس دو اونٹنیاں موجود تھیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قاعدہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی جنگ کا ارادہ کرتے تو اس کو صاف بیان نہ فرماتے، بلکہ ایسا تاثر دیتے کہ لوگ کوئی دوسرا مقام سمجھیں ، تاہم جب اس لڑائی کا وقت آیا تو ایک تو سخت گرمی تھی، پھر دور دراز کا صحرائی سفر تھا اور دشمنوں کی تعداد بھی کثیر تھی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو صاف صاف بتا دیا کہ ہم تبوک جانا چاہتے ہیں ، تاکہ وہ لڑائی اور سفر کا سامان خوب تیار کرلیں ۔ اس سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلمان خاصی تعداد میں تھے اور کوئی رجسٹر وغیرہ نہ تھا کہ جس میں ان کے نام محفوظ ہوتے۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان اس لڑائی میں غیر حاضر رہنا چاہتا تو وہ یہ گمان کرسکتا تھا کہ اس کا غیر حاضر ہونا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تک معلوم نہ ہوگا جب تک کہ اس کے بارے وحی نہ اتر آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑائی کا اس وقت ارادہ کیا جب باغات کے پھل پک چکے تھے اور سخت گرمی کی وجہ سے سایہ دلکش معلوم ہوتا تھا، بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام مسلمانوں نے اس لڑائی کے لیے سامان سفر تیار کرنا شروع کردیا۔ میں بھی ہر صبح جاتا کہ سامان تیار کروں مگر خالی ہاتھ لوٹ آتا اور کچھ تیاری نہ کرتا۔ میں اپنے دل میں یہ کہتا کہ میں تو کسی بھی وقت اپنا سامان تیار کرسکتا ہوں ۔ اسی طرح دن گزرتے رہے اور لوگوں نے محنت و مشقت اٹھا کر اپنا اپنا سامان تیار کرلیا، یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان ایک صبح روانہ ہوگئے اور میں ابھی تک کچھ سامان تیار نہ کرسکا تھا۔ میں نے سوچا کہ ایک دو روز میں سامان تیار کر کے ان سے جاملوں گا، تاہم دوسری صبح میں نے سامان تیار کرنا چاہا لیکن خالی لوٹ آیا، پھر تیسری صبح بھی ایسا ہی ہوا کہ خالی لوٹ آیا اور کوئی تیاری نہ
[1] سورۃ التوبہ: 118۔